خوفزدہ پاکستانی صحافی، عالمی اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں
8 جون 2011پاکستان میں سیلم شہزاد کے قتل کے بعد کئی مقبول ٹاک شوز کو بند کرنے، بعض اینکر پرسنز کو ہٹانے اور کچھ صحافتی اداروں کی ادارتی پالیسی میں تبدیلیاں لانے کے لیے دباؤ ڈالنے اور صحافیوں کو دھمکانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ طاقتور اداروں کے سامنے کمزور جمہوری حکومت کی بے بسی کی وجہ سے پاکستانی صحافی شدید مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں۔ ایک طرف انہیں دہشت گرد تنظیموں سے خطرہ ہے تو دوسری طرف انہیں خفیہ اداروں کے منفی ہتھکنڈوں کا سامنا ہے۔
مبینہ طور پر سرکاری اداروں کی تحویل میں چند ہفتے پہلے ہلاک کر دیے جانے والے صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنانے کا حکومتی دعویٰ کئی روز گزر جانے کے باوجود ابھی تک پورا نہیں ہو سکا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ سلیم شہزاد کی لاش منڈی بہاوالدین کے علاقے سے ملی تھی، اسی لیے تحقیقات بھی اسی علاقے کی پولیس کرے۔ منڈی بہاالدین کے پولیس حکام کا اصرار ہے کہ چونکہ سلیم شہزاد کو اسلام آباد سے اغوا کیا گیا تھا، اس لیے اس کیس کی تحقیقات کرنا اسلام آباد پولیس کا کام ہے۔ ایسی اطلاعات بھی مل رہی ہیں کہ سلیم شہزاد کے موبائل فون کا ریکارڈ ضائع کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس صورتحال نے پاکستانی صحافیوں کو مایوسی سے دو چار کر دیا ہے۔
مبینہ طور پر ایک خفیہ ادارے کے تشدد کا نشانہ بننے والے دی نیوز کے رپورٹرعمر چیمہ کہتے ہیں کہ ملک میں پاکستانی صحافی کی کوئی وقعت نہیں ہے، اسے بہت ہی آسانی سے قتل کر دیا جاتا ہے اور ظالموں کو سزا تک نہیں ملتی۔ عمر چیمہ کے بقول آج تک پاکستان میں مارے جانے والے کسی بھی صحافی کے قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکا صرف ایک صحافی کے قاتل اپنے انجام کو پہنچے وہ امریکی صحافی ڈینیل پرل تھا۔ ان کے بقول اگر ڈینیل پرل پاکستانی ہوتا تو آج تک اس کے قاتلوں کی کسی کو خبر تک نہ ہوتی۔ عمر چیمہ کہتے ہیں کہ دوران حراست مارے جانے والے سلیم شہزاد کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ وہ ایک پاکستانی صحافی تھا اگر اس کے پاس امریکہ ، جرمنی یا برطانیہ کا پاسپورٹ ہوتا تو اس کے ساتھ یہ سلوک کبھی نہ ہوتا۔
سینئر صحافی امتیاز عالم کا خیال ہے کہ اگلے دس سالوں میں بھی سلیم شہزاد کے قاتلوں کو سزا ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا سلسلہ جنگی علاقوں سے اب وفاقی دارالحکومت تک آن پہنچا ہے۔ ان کے بقول صحافیوں کے لیے اپنے فرائض کی انجام دہی بہت مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ آزادی صحافت افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔ پاکستان میں سول حکومت کے خلاف لکھنے کی تو پوری آزادی ہے لیکن کسی اور ادارے کے خلاف لکھنے والے قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے مجرم قرار پاتے ہیں۔ ان کے مطابق کوئی نہیں بتا رہا کہ قومی سلامتی کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے۔
پاکستان میں جیو ٹی وی کی انتظامیہ نے اسلام آباد پولیس کو باضابطہ طور پر مطلع کیا ہے کہ ان کے ایک سینئر صحافی حامد میر کی گاڑی کا پچھلے کئی دنوں سے تعاقب کیا جا رہا ہے۔ کچھ اور ایسے ہی واقعات لاہور، کراچی اور دیگر شہروں کے صحافیوں کی طرف سے بھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔ صحافی حامد میر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ انہیں ایک با اثر سیاستدان کی طرف سے ایک دھمکی آمیز پیغام بھجوایا گیا ہے اور مشورہ دیا گیا ہےکہ وہ زیادہ بہادر صحافی بننے کی کوشش نہ کریں۔ حامد میر کے بقول پاکستان میں ایف آئی اے، پولیس، خفیہ ادارے اور عدالتیں صحافیوں کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ اب پاکستان کے دو درجن سے زائد صحافیوں نے ایک اجتماعی ای میل کے ذریعے اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کی اطلاع عالمی اداروں تک پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے۔
حمید ہارون، نجم سیٹھی، حامد میر، عمر چیمہ ، نصرت جاوید، مشتاق منہاس، ضیا الدین احمد، احمد رشید، عامر احمد خان، نسیم زہرا، عامر میر اور کاشف عباسی سمیت پاکستان کے درجنوں صحافی اپنے آپ کو درپیش خطرات کے حوالے سے پیشگی طور پر ایمنسٹی انٹرنیشنل، انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جنرنلسٹس، انٹرنیشنل فیڈریشن آف جنرنلسٹس اور اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں کے علاوہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو آگاہ کرنے جا رہے ہیں۔
بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ مقتول صحافی سلیم شہزاد کی طرف سے عالمی اداروں کو بھیجی جانے والی ای میل تو اس کا تحفظ نہیں کر سکی تھی۔ لیکن بعض مبصرین کے مطابق پھر بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستانی صحافیوں کے اس اقدام کے بعد حرکت میں آنے والا تھوڑا بہت عالمی دباؤ صورتحال میں کچھ بہتری کا باعث بن سکے۔ ادھر جنوبی ایشیا کے صحافیوں کی تنظیم سیفما نے بھی پاکستان صحافت کو درپیش خطرات سے آگاہی کے لیے کئی واچ ڈاگ اداروں اور عالمی صحافتی تنظیموں کو پاکستان آنے کی دعوت دی ہے تا کہ وہ اپنے طور پر پاکستان میں آزادی صحافت کے حوالے سے تازہ صورتحال کا جائزہ لے سکیں۔
یاد رہے پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یہاں 2010 ء سے لے کر اب تک 15 صحافی موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے صحافیوں کو اسلحہ ساتھ لے کر چلنے کا مشورہ دیا ہے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عدنان اسحاق