خونی لڑائی اور ’ٹکڑے ٹکڑے‘ ہوتا ہوا لیبیا
25 اگست 2015امریکی شہر نیویارک میں قائم مشاورتی انٹیلی جنس تھنک ٹینک ’سوفن‘ کے تجزیہ کار پیٹرک سکنر کا کہنا ہے، ’’سن دو ہزار گیارہ میں قذافی حکومت کے بعد سے اب صورتحال سب سے زیادہ خطرناک ہے۔‘‘ تیل کی دولت سے مالا مال شمالی افریقی ملک لیبیا میں گزشتہ بارہ ماہ سے دو متوازی حکومتیں کام کر رہی ہیں اور ان دونوں حکومتوں کے مابین اقتدار پر قبضے کی جنگ جاری ہے۔
متنازعہ خلیفہ حفتر کی فورس، پولیس اہلکاروں، فوجیوں اور چند ملیشیا گروپوں پر مشتمل ہے جبکہ ان کو لیبیا کی اُس حکومت کی بھی حمایت حاصل ہے، جسے مغربی دنیا تسلیم کرتی ہے۔ خلیفہ حفتر اور مغرب کی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف اسلام کے نفاذ کے لیے کام کرنے والی شوریٰ کونسل برسر پیکار ہے۔ لیبیا کا ملیشیا گروہ ’فجر لیبیا‘ بھی اس کونسل کا سب سے بڑا اتحادی ہے اور اس کونسل نے گزشتہ برس دارالحکومت طرابلس کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ بن غازی میں انصار الشریعہ گروپ بھی موجود ہے۔ امریکی حکومت اس گروپ کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے چکی ہے۔ مبینہ طور پر سن دو ہزار بارہ میں امریکی سفارت خانے پر ہونے والے حملے میں یہ گروپ بھی ملوث تھا۔
یاد رہے کہ سن دو ہزار گیارہ میں معمر قذافی کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت میں ہزاروں رضاکار جنگجوؤں کو مسلح کیا گیا تھا اور اس وقت ان گروہوں کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اُس وقت اِن باغیوں کو نہ صرف چھوٹے بلکہ بھاری ہتھیار بھی فراہم کیے گئے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق لیبیا کے مسلح گروپوں کے پاس اس قدر اسلحہ موجود ہے کہ وہ آئندہ کئی برسوں تک لڑائی جاری رکھ سکتے ہیں۔
پیٹرک سکنر کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک برس سے لیبیا میں جہادی جنگجوؤں کا دائرہ کار وسیع ہوتا جا رہا ہے جبکہ ملک دو حکومتوں کے بجائے مقامی قبائل میں بھی تقسیم ہوتا جا رہا ہے، ’’لیبیا میں اس وقت علاقائی ممالک بھی اپنے حمایتی گروپوں کی سرپرستی جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
ان کے علاوہ بن غازی میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے وابستہ گروپ بھی موجود ہے جبکہ ملک میں پائی جانے والی سیاسی تقسیم، لاقانونیت اور اس افراتفری میں مزید اضافے کا سبب بن رہی ہے جبکہ یہ ملک شمالی افریقہ کے جہادیوں کے لیے بھی مقناطیس بنتا جا رہا ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران اس لڑائی میں کم از کم تین ہزار سات سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیبیا باڈی اکاؤنٹ ویب سائٹ کے مطابق اس لڑائی کی وجہ سے ہزاروں افراد وہاں سے نقل مکانی بھی کر چکے ہیں جبکہ زیادہ تر ہلاکتیں مصراتہ شہر میں ہوئیں۔
لیبیا کے مرکزی بینک کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ لڑائی کی وجہ سے ملکی معیشت ’تباہ‘ ہو چکی ہے۔ خام تیل کی یومیہ پیداوار پانچ لاکھ بیرل ہے جبکہ گزشتہ برس کے آغاز پر یومیہ پیداوار سولہ لاکھ بیرل تھی۔ دوسری جانب لیبیا کو بیرونی ممالک کا قرض واپس کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ انسداد بدعنوانی واچ ڈاگ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سن دو ہزار چودہ کی رپورٹ کے مطابق لیبیا بدعنوان ملکوں کی فہرست میں دسویں نمبر پر آ چکا ہے۔