خیبر پختونخوا میں عیسائی برادری کا کرسمس سادگی سے منانے کا اعلان
24 دسمبر 2013کرسمس کے قریب آتے ہی مرنے والوں کے رشتہ دار اس چرچ میں پہنچ رہے ہیں، جہاں سینکڑوں کی تعداد میں خود کش حملوں کی نذر ہونے والوں کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔
آل سینٹ چرچ کی دوبارہ بحالی کا کام شروع کردیا گیا ہے اور اس کی سکیورٹی میں بھی پہلے کی نسبت اضافہ کیا گیا ہے۔ چرچ انتظامیہ نے نجی سکیورٹی گارڈ بھی رکھ لیے ہیں، تاہم چرچ کے اندر آج بھی دھماکے کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
چرچ میں خدمت پر مامور اس سانحے کے چشم دید گواہ ذیشان نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا، ”حکومت کی جانب سے انہیں کوئی ریلف نہیں ملا، جن کو تھوڑا بہت ملتا ہے، انہیں بھی انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پورے پشاور میں عیسائی برادری سوگ کے عالم میں ہے کیونکہ اگر کسی کے گھر میں زخمی پڑے ہیں تو کسی کے گھر میں موت واقعی ہوئی ہے۔ اس مرتبہ کرسمس کا وہ مزہ نہیں ہوگا اس لیے ہم اسے سادگی سے منائیں گے۔“
اس چرچ میں مرنے والوں کے لیے صوبائی حکومت نے پانچ لاکھ روپے جبکہ زخمی ہونے والوں کے لیے مفت علاج کی سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس دوران پاکستان کے صوبہ سندھ سے بھی ان کے لیے مالی امداد فراہم کی گئی جبکہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے بھی متاثرین میں امدادی چیک تقسیم کیے گئے۔
تاہم عیسائی برادری کا موقف تھا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے چرچ دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کے ورثاء کے لیے 20 کروڑ روپے کے ٹرسٹ کے قیام کا اعلان کیا تھا، جس پر ابھی تک عمل درآمد نہ ہوسکا۔ مسیحی برادری آج بھی یہ شکوہ کر رہی ہے کہ اس واقعے کے بعد آج بھی ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا اور آج بھی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سکیورٹی پر انہیں تحفظات ہیں۔
آل سینٹ چرچ کوہاٹی کے پادری اعجاز گل اور سیکرٹری پریش کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک مسیحی شہریوں کو پاکستان کے دوسرے عام شہریوں کے برابر حقوق نہیں دیے گئے اور نہ ہی ان کے لیے مذہبی تہواروں میں کسی قسم کی سکیورٹی فراہم کر نے کے لیے اقداما ت اٹھائے جاتے ہیں۔
مسیحی برادری کی مذہبی اور مقدس عمارتوں اور ان کی جان و مال کی تحفظ دینے میں صوبائی حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔
کوہاٹی چرچ دھماکہ کی ابھی تک انویسٹی گیشن نہیں کی گئی جبکہ سانحہ کوہاٹی چرچ کے متاثرہ خاندانوں کو شہداء پیکچ صحیح معنوں میں نہیں دیا گیا۔ سانحہ کوہاٹی چرچ کی وجہ سے اس مر تبہ کرسمس خاموشی سے منایا جائے گا اور چرآغاں بھی نہیں کیا جائے گا۔
مسیحی برادری صوبائی حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے سکیورٹی کے اقدامات سے مطمئن نظر نہیں آتے، تاہم جب صوبہ بھر کی سکیورٹی کے لیے اقدامات کے حوالے سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے ترجمان شیراز پراچہ سے بات کی تو انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا ”خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی سرحدیں تین اطراف سے قبائلی علاقوں سے ملتی ہیں اور چند منٹ کے فاصلے پر سے جب کوئی بھی ان قبائلی علاقوں میں داخل ہوتا ہے جس پر صوبائی حکومت کے ادارے ہاتھ نہیں ڈال سکتے تو یہی وجہ ہے کہ صوبائی ادارے بعض اقدامات میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت مل کر ان علاقوں کے لیے موثر قانون سازی کرے تب جاکر اس مسلئے کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ “
صوبائی حکومت کی جانب سے جہاں آل سینٹ چرچ کی تعمیر و مرمت کا کام شروع کیا ہے وہاں اس میں سکیورٹی کا جدید نظام بھی لگا دیا ہے، تاہم عیسائی برادری ان انتظامات سے مطمئن نہیں ہے۔