کے پی کی چوبیس سرکاری یونیورسٹیاں وائس چانسلر کے بغیر
29 مارچ 2024پشاور کی تاریخی یونیورسٹی آف پشاور، زرعی یونیورسٹی ، انجینیئرنگ یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج سمیت مالی مشکلات کی شکار کئی دیگر جامعات وائس چانسلر کی تعیناتی نہ ہونے کا سامنا کررہی ہیں۔ گوناگوں مشکلات کی وجہ سے اساتذہ اور انتظامیہ اکثر سڑکوں پر تنخواہ اور دیگر سہولیات کے لیے احتجاج کرتے نظر آتے ہیں ۔
سرکاری سرپرستی میں چلنے والی خیبرپختونخوا کی تقریباً تمام جامعات مسلسل مالی بحران کا سامنا کررہی ہیں۔ ان جامعات میں اساتذہ کے ساتھ ساتھ انتظامی عملہ بھی آئے دن سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں سے وفاقی اور صوبائی حکومت نے خیبر پختونخوا کی جامعات پر توجہ کم کرنے کے ساتھ ساتھ انکی ضروریات کے لیے مطلوبہ رقوم فراہم کرنے میں کمی کی ہے۔ گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی اب تک ایک درجن سے زیادہ جامعات کا دورہ کرچکے ہیں لیکن وہ اب تک کسی بھی یونیورسٹی کے مسائل حل نہ کرسکے ۔ وفاقی حکومت کے زیر انتظام اداروں نے 2018 ء کے بعد خیبر پختونخوا کے جامعات کے لیے مختص گرانٹس میں کمی کی ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخوا حکومت نے بھی گزشتہ تین سال کے دوران زرعی یونیورسٹی پشاور سمیت کئی دیگر نئی یونیورسٹیز کو صوبائی گرانٹ نہیں دی گئی جسکی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے ۔ مالی مشکلات کے ساتھ ساتھ 20 یونیورسٹیز بھی گزشتہ ایک عرصے سے مستقل وائس چانسلرسے محروم ہیں ۔
سیاسی مقاصد کے لیے یونیورسٹیز کا قیام
دور دراز کے علاقوں میں سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے قائم کی جانیوالی یونیورسٹیاں جلد ہی مشکلات میں پھنس گئیں ۔ سیاستدانوں نے زیادہ تر جامعات محض اپنے لوگوں کو نوکریاں دلانے کے لیے کھولیں ۔ان یونیورسٹیز کے قیام سے تعلیمی معیار پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے عملے کی کمی کے ساتھ ساتھ انہیں وسائل کی کمی کا بھی سامنا ہے ۔
مالی مشکلات کی بنیادی وجوہات
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں تاریخی یونیورسٹی آف پشاور ، انجنیئرنگ یونیورسٹی ، اسلامیہ کالج یونیورسٹی اور زرعی یونیورسٹی کے ملازمین کی بھاری تنخواہ اور پینشن کی ادائیگی کے لیے پریشان ہیں ۔ ان جامعات میں پڑھائی اور ریسرچ پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے جسکی وجہ سے معیار تعلیم روز بہ روز زوال پذیر ہے۔
مایوس کن تحقیقی کارکردگی
مالی سال دوہزار تیئس اور چوبیسس کے دوران پختونخوا کی تمام جامعات کے مجموعی اخراجات 41 ارب روپے تک پہنچائے گئے لیکن ان اخراجات کے مقابلے میں یونیورسٹی میں تحقیقی کام کے لیے محض ایک ارب روپے مختص کیے گئے جس سے یونیورسٹی انتظامیہ اور تعلیمی ایمرجنسی کے دعویداروں کے دعووں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
مالی مشکلات اور جامعات کے اندرونی مسائل میں پھنسے خیبر پختونخوا کی یونیورسٹیز تحقیقی کام پر توجہ نہ دے سکی۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ اسکور کارڈ میں صوبے کی صرف دو یونیورسٹیز 60 فیصد نمبر حاصل کرسکی ہیں۔ مسلسل مسائل میں پھنسے تاریخی پشاور یونیورسٹی صرف 10 فیصد پوائنٹس اسکور کر سکی ہے۔ ہائیر ایجوکیشن رپورٹ جاری کرنے کے بعد خیبر پختونخوا کی یونیورسٹیز کو فیکلٹی ممبران کی استعداد اور باصلاحیت افرادی قوت بڑھانے کا مشورہ دیا ہے جبکہ فیکلٹی ممبران کے لیے سیمیناراور ورکشاپس سمیت تربیتی پروگرامز ترتیب دینے پر زور دیا ہے ۔
ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے زرعی یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جہاں بخت کا کہنا تھا، ''اس وقت یونیورسٹی کے پورے عملے کو فروی کے لیے آدھی تنخواہ دیں گے۔ ہمیں اخراجات سے نمٹنے کے لیے 40 کروڑ روپے کی ضرورت ہے ۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اگر یہی حال رہا تو مئی میں یونیورسٹی کے پاس یوٹیلیٹی بلز اور تنخواہ دینے کے لیے پیسے نہیں ہونگے۔ مجبوراً زرعی یونیورسٹی اور تاریخی یونیورسٹی آف پشاور جون میں بند ہونگی کیونکہ پشاور یونیورسٹی کو اخراجات سے نمٹنے کے لیے ایک ارب روپے کی ضرورت ہے ۔‘‘ ڈاکٹر جہاں بخت کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کو 40 کروڑ روپے کی سمری ارسال کی گئی جس میں انہیں ساڑھے سات کروڑ روپے دیے گئے جبکہ مزید ساڑھے سات کروڑ روپے کے لیے سمری چیف سکریٹری کے پاس پڑی ہے اور یہ رقم مل جائے تو صرف تنخواہ اور پینشن کا کچھ حصہ ادا کرنے کے قابل ہونگے ۔ انکا کہنا تھا کہ جہاں ہائیر ایجوکیشن نے پختونخوا کی یونیورسٹیز کے گرانٹ پر کٹ لگا یا ہے وہاں صوبائی حکومت نے بھی زرعی یونیورسٹی کو 40 کروڑ روپے کی بجائے ساڑھے سات کروڑ دیے۔
24 جامعات کے لیے وائس چانسلرز کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل کرنے کا فیصلہ
صوبائی حکومت جامعات کو مالی مشکلات سے نکالنے کے لیے ماہرین پر مشتمل کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 23 جنوری کو اسلام آباد میں مختلف جامعات کے لیے وائس چانسلرز کے 190 اُمیدواروں کے انٹرویوز لیے گئے لیکن غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے حتمی فہرست سامنے نہ آسکی۔ صوبائی وزیر تعلیم مینا خان آفریدی کے بقول ''یونیورسٹیز ایکٹ میں خامیاں ہیں جسکی وجہ سے وائس چانسلرز کی تعیناتی میں مشکلات کا سامنا ہے۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلی کے آنیوالے اجلاس میں اس ایکٹ میں ضروری ترامیم لائیں گے جسکے بعد یونیورسٹی کے لیے وائس چانسلرز کی تعیناتی کا مسئلہ حل کیا جائے گا ۔‘‘