دائی انگا مسجد ، ایک تاریخی ورثہ
دائی انگا نامی تاریخی مسجد کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا، تاریخ کے جبر، لاہور کی بڑھتی ہوئی آبادی، شہری ڈھانچے میں تبدیلی و ترقی اور موسمی تغیرات تاہم اس تاریخی ورثے کی اہمیت کو ماند نہیں کر سکے ہیں۔
دائی انگا مسجد، ماضی اور حال میں
کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب تاریخِ لاہور (1882ء) میں محلہ دائی انگا کا بھی ذکر کیا ہے۔ دائی انگا کا نام زیب النساء تھا اور وہ مغل شہنشاہ شاہجہاں کی دائی ماں تھیں۔ روایات کے مطابق شاہجہاں نے دائی انگا سے انسیت کی وجہ سے گلابی باغ کی تعمیر کرائی ، جہاں زیب النساء کا مقبرہ بھی بنایا گیا۔
موجودہ دائی انگا سٹریٹ
نو لکھا چوک اور علامہ اقبال روڈ کے جم غفیر سے نکل کر نو تعمیر اورنج ٹرين کی پٹری کے دونوں اطراف اٹھارہویں صدی سے قائم ریلوے کالونی اور پرائیویٹ گھر دائی انگا گلی سے مسجد تک لے جاتے ہیں۔
دو ادوار اور دو در
مسجد دائی انگا کے سٹیل کے دروازے والی مہراب کے ساتھ لاہور سے نئی دہلی جانے والی سمجھوتا ایکسپریس کے پلیٹ فارم کا گیٹ بھی ملتا ہے۔ تاریخ کے یہ دو دوروازے عمروں کے حسابوں کے ساتھ ساتھ ماضی کے تلخ ادوار پہ بھی دستک ہیں۔ سیاحوں کے لیے اس لمحے کتاب ماضی کے اوراق پرکھنا دشوار لگتا ہے اور ان گنت داستانیں اس غیر معمولی مقام پہ دھری رہ جاتی ہیں۔
عکسِ بسمل
خاص شاہ جہانی طرزِ تعمیر اور مسجد وزیر خان کے رنگوں سے مماثلت، یہ خوبصورت مسجد تاریخی وضو کے تالاب میں عکس جمائے محب اور محبوب کے بیچ آج بھی ربط ہے۔ مقامی بزرگوں کا کہنا کہ تالاب کی گھرائی کم کر دی گئی مگر اب بھی اجتماعی نمازوں کے وقت نمازی تالاب سے وضو کرتے۔ یہ باغیچہ پرانے باغات کی آخری نشانی لیے مسجد کے سامنے اب بھی کھڑا ہے۔
خندہ پیشانی یہ
تمام مغل تعمیرات کی طرح مسجد دائی انگا کی بھی اونچے دروازے کی خندہ پیشانی پہ کاشی کاری سے خطاطی کی صدیوں رہ جانے والے سمرقند و بخارا کی داستانیں لیے نارنجی، نیلگوں اور دیگر خوبصورت رنگوں میں رچی یہ مسجد، مغلوں کی عقیدت اور کاریگروں کی مہارت اس کے دیکھنے والوں کو اس دنیا کے بنانے والے تک لے جاتی ہے۔
یادوں کے طاقچے
چونے، ٹائیلوں اور تراشوں سے مزین دیواروں سے داخل ہوتے ہی داستانِ رنگ و بو بدل جاتی ہے۔ یادوں کے طاقچوں میں پڑے شکستہ حقائق قارئین کی تلاش میں رہتے ہیں، جس میں انگریز بہادر کی رہائش، دورِ رجیت سنگھ میں فوجی ڈپو اور پھر مسجد کو دفتر ریلوے ٹریفک بنا دیناشامل ہیں۔ بلا آخر 1903 ء میں لارڈ کرزن جو تعمیرات کے خاصے دل داده تھے، انہوں نے اس کو واپس بطور مسجد ہی مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔
بوِ غمِ زیست
اس مسجد کے بھی تین گنبد ہیں، درمیانی بڑا اور دائیں بائیں والے چھوٹے، مغل فن تعمیر کا یہی خوبصورت انداز ہزاروں مساجد کی شناخت ہے۔ مسجد کی تعمیر کے بعد اسے جن حادثات سے گرنا پڑا، دیواروں کی طرح اس کے گنبد بھی تاریخ کے اوراق بن گئے ہیں۔ یہ اندرونی ٹائٹل کا کام لوگوں کی اپنی مدد آپ سے ابھی بھی جاری ہے۔ بیل بوٹے بدل ضرور گئے، مہارت بھی شاید وہ نا ہو مگر تزئین کا انداز وہی ہے۔
سہارا ریختہ اینٹوں
ممبر کے دونوں اطراف برآمدوں پہ وقت کے ستم اور گزرتے موسموں میں معیاری دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اندرون سطح سے پرانے نقشوں و نگار کی جگہ اب دیواروں پہ سفید ٹائلوں نے لے لی ہے، ریختہ اینٹوں کا شاید اب یہیں سہارا کافی ہو جس سے بدلتے موسموں اور جدید رجحانات کا سامنا کرنا آسان ہو گا۔
دعائیہ اور حقیقی
مسجد کی بیرونی جنوبی دیوار جسے سورج کا زیادہ سامنا رہتا، یہ دیوار قدرے بہتر ہے مگر شکست و ریخت اس کا بھی مقدر ہے۔ پھولوں اور بیلوں کی تقسیم دعائیہ اور حقیقت سے قریب انداز میں نیچے سے اوپر بنانا صرف انسانی مہارت کی خوبی ہی نہیں اس کے اندر چھپے افکار کی بھی عکاس ہے۔
تصویر یا ٹائم مشین
دور حاضر اور گزرتے ہر وقت کے عين مطابق ہو گا مگر ہزار کہانیوں اور تاریخی واقعات سے بھرا یہ ہزاروں ایکڑ پہ محیط لاہور ریلوے اسٹیشن، دائی انگا محلے کو سمیٹ کر اسے دائی انگا مسجد تک محدود کیے ہوئے ہے۔ روز بروز بڑھتی آبادی اور سہولتوں کا بازار تاریخ کے ان ناتمام پنوں کو پھر سے پڑھنے اور واقعات کے سفر پہ نکلنے کے لیے یہ تصویریں اب ٹائم مشین بن گئیں ہیں۔