داعش کے خلاف عراق کو مزید فوجی مدد نہیں دے سکتے، جرمنی
20 اپریل 2017زیگمار گابریئل کویت سے جرمن فوج کے ایک طیارے کے ذریعے منگل اٹھارہ اپریل کو عراقی دارالحکومت بغداد پہنچے تھے۔ اُن کا جنگ اور دہشت گردی سے تباہ حال لیکن معدنی تیل کی دولت سے مالا مال عرب ملک عراق کا یہ پہلا دورہ ہے۔ وہ اس سے پہلے کسی بھی حیثیت میں کبھی عراق نہیں گئے۔ اُن کے اس دورے کے موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔
عراقی قیادت کے ساتھ اپنی بات چیت میں زیگمار گابریئل نے ایسی اصلاحات کا عمل تیز تر کرنے پر زور دیا، جن کے نتیجے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے زیادہ بہتر حالات پیدا کیے جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ عراقی سیاست کے لیے یہ بات ناقابلِ قبول ہونی چاہیے کہ سیاستدان محض اپنے قبائل کو اور مخصوص مفادات کے حامل گروپوں کو ہی فائدے پہنچائیں۔
ساتھ ہی گابریئل نے یہ کہتے ہوئے جرمنی کی جانب سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف مزید فوجی امداد کو خارج از امکان قرار دیا کہ جرمنی عراقی سکیورٹی فورسز کو تربیت فراہم کرتے ہوئے اپنا کردار انجام دے رہا ہے: ’’ہم ایسا ہرگز نہیں کریں گے کہ یہاں امن و امان قائم کرنے کے لیے اپنے فوجیوں کے ساتھ یہاں پہنچ جائیں۔‘‘
گابریئل نے کہا کہ عراقی سکیورٹی فورسز کی تربیت ایک ’درست راستہ‘ ہے، خاص طور پر اس لیے بھی کہ عراق میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو ’غیر ملکی سکیورٹی فورسز کی موجودگی کو ایک طرح سے اپنے ملک پر قبضے کے مترادف سمجھتے ہیں‘۔
گابریئل نے یہ بھی کہا کہ جنگ سے تباہ حال اس ملک کی تعمیر نو کی ذمہ داری خاص طور پر امریکا پر عائد ہوتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکا کی جانب سے سن 2003ء میں ’بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے‘ جو جنگ شروع کی گئی، اُس کے اثرات آج بھی اس ملک میں جگہ جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔
جمعرات کو اپنے دورے کے دوسرے روز جرمن وزیر خارجہ شمالی عراق میں ہیں، جہاں وہ کُرد سیاستدانوں اور بالخصوص اس خود مختار علاقے کے کُرد صدر مسعود برزانی کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ جہادی تنظیم داعش سے آزاد کروائے گئے علاقوں کے لیے امدادی سامان بھی مقامی انتظامیہ کے حوالے کرنے والے ہیں۔
گابریئل شمالی عراقی شہر اربیل میں جرمن فوج کی جانب سے کُرد پیش مرگہ فوج کو دی جانے والی تربیت کے بارے میں بھی آگاہی حاصل کریں گے۔ اربیل میں، جو کئی ملین کی آبادی والے بڑے شہر موصل سے صرف اَسّی کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، ایک سو چالیس جرمن فوجی ستمبر 2014ء سے کُرد پیش مرگہ کو تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ دو سال سے زائد عرصہ قبل داعش کے قبضے میں چلے جانے والے شہر موصل کو واپس حاصل کرنے کے لیے گزشتہ اکتوبر سے جاری آپریشن میں بھی پیش مرگہ فوج شریک ہے۔
جرمنی شمالی عراق کے کُردوں کو تربیت کے ساتھ ساتھ اسلحہ بھی دے رہا ہے۔ اس سال جنوری میں جرمن پارلیمان نے شمالی عراق میں جرمن فوج کے تربیتی مشن میں جنوری 2018ء تک کے لیے توسیع کر دی تھی۔