دنیا بھر میں لاکھوں بچے گھریلو تشدد کا شکار، ڈبلیو ایچ او
8 نومبر 2024ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے منقعدہ ایک کانفرنس میں یہ کہا گیا کہ بچوں پر ہونے والے اس تشدد میں اہل خانہ کی جانب سے کی جانے والی مار پیٹ اور اسکولوں میں ہراسانی جیسے مسائل شامل ہیں۔ جس میں جسمانی، جنسی، اور جذباتی تشدد سرِ فہرست ہے۔
کولمبیا کے شہر بوگوٹا میں بچوں کے خلاف تشدد کی روک تھام کے حوالے سے اقوام متحدہ کی پہلی کانفرنس رواں ہفتے شروع ہوئی۔ اس دو روزہ کانفرنس میں سو سے زائد ممالک نے شرکت کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ان والدین کی مدد کرنے کی کوشش کریں گے جن کے بچے جسمانی تشدد کے باعث ذہنی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ اس موقع پر تعلیمی اداروں میں ہونے والی ہراسانی اور تشدد کے خلاف موثر پروگرام متعارف کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا گیا۔ بچوں کے ساتھ جنسی تشدد میں ملوث افراد کے لیے سزائے موت، عمر قید اور بھاری جرمانہ
اس کانفرنس میں کئی ملکوں نے شادی کی کم سے کم عمر میں اضافہ کرنے پر اتفاق بھی کیا۔ دیگر ممالک کی جانب سے بچوں پر گھریلوں سطح پر اور تعلیمی اداروں میں کیے جانے والے جسمانی تشدد پر پابندی عائد کیے جانے اور قوانین متعارف کرائے جانے کی ضرورت کو اجاگر کیا۔
اس کانفرس میں یہ بھی کہا گیا کہ عموماﹰ ایسے معاملات، شکار ہونے والے بچوں کے ساتھ، تنہائی میں پیش آتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق مجموعی طور پر دنیا بھر میں ہر سال 2 سے 17 سال کی عمر تک کے ایک ارب نابالغ افراد تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔
اس موقع پر جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پانچ میں سے تین بچوں کو اپنے گھروں میں جسمانی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں عموماﹰ پانچ میں سے ایک لڑکی اور سات میں سے ایک لڑکا ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق، پچاس فیصد نابالغ افراد اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی اور تشدد کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں۔ تاہم ان میں سے صرف دس فیصد بچوں کو مدد فراہم کی جاتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ڈانٹ، مار، گالم گلوچ اور تضحیک آمیز برتاؤ بچوں کی نفسیات پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کی وجہ سے بچے اضطراب، ڈپریشن، منشیات کی لت، مجرمانہ سرگرمیوں میں پڑ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ بچوں کی سیکھنے سکھانے کی صلاحیت تک متاثر ہونے کے امکانات بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادانوم گیبریئسس کا کہنا ہے، "حفاظتی اقدامات یقینی بنانے کے باوجود بھی دنیا بھر میں لاکھوں بچے تشدد کا شکار ہورہے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے۔"
ز ع / ر ب (ایجنسیاں)