دنیا بھر میں ہر سال 20 ملین ٹن غذا کا ضیاع
16 اکتوبر 2015رومن کیتھولک چرچ کی جرمنی میں قائم سب سے بڑی امدادی تنظیم Misereor نے حال ہی میں وفاقی جرمن حکومت کے ایکشن پلان پر غیر معمولی زور دیتے ہوئے اس امر کو یقینی بنانے کی ضرورت اجاگر کی کہ غذا کے ضیاع پر کنٹرول کیا جائے اور دنیا سے بھوک کا خاتمہ ممکن بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس سلسلے میں چند لازمی اہداف مقرر کیے جانے چاہییں۔ 2020ء تک غذاء کے ضیاع میں کم از کم 50 فیصد کی کمی کا ہدف طے کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
سُپر مارکٹیوں کے لیے ایکشن پلان
وفاقی جرمن حکومت کے اس ایکشن پلان میں مثال کے طور پر ایک یہ منصوبہ بھی شامل ہے کہ سُپر مارکیٹوں میں خوردنی اشیاء کو ضائع کرنے کے عمل کو روکا جائے۔ اس سلسلے میں اشیاء خورد و نوش کا کاروبار کرنے والوں پر قابل استعمال غذائی اجزا کو پھینکنے یا ضائع کر دینے پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔
کیتھولک امدادی تنظیم کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 800 ملین انسان بھوک کا شکار رہتے ہیں۔ صرف جرمنی میں ہر سال 20 ملین ٹن غذائی اشیاء کوڑے دانوں میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ کرسچیئن سوشل یونین (CSU) کے سیاستدان اور جرمنی کے وفاقی وزیر زراعت کرسٹیان شمِٹ نے دنیا بھر میں پائی جانے والی غربت اور بھوک کو مختلف خطوں کی طرف رواں مہاجرین کے سیلاب کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا ہے۔
جرمن وزیر نے اس بارے میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ’اس وجہ سے میں غذا کے حصول کے بنیادی حق کو بین الاقوامی قوانین میں شامل کرنے کی وکالت کرتا ہوں اور ایک ایسی بین الاقوامی زرعی تجارت کی حمایت کرتا ہوں، جو ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کو مدِنظر رکھے‘۔ وفاقی جرمن وزیر زراعت کے بقول پیداواری اور پائیدار زراعت ہی سیاسی استحکام کے لیے فیصلہ کُن عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔
مہاجرت کا تعلق بھی بھوک سے
بچوں کی امداد کے ادارے ’ ورلڈ ویژن‘ نے خوراک کے عالمی دن کے موقع پر کہا ہے کہ بھوک ہی دراصل دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کو اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر کسی ایسے مقام کی طرف ہجرت پر مجبور کر دیتی ہے جہاں وہ اپنے اور اپنے بچوں کا مستقبل بہتر دیکھتے ہیں۔ مزید برآں یہ کے بھوک ہی مختلف تنازعات کی بھی وجہ بنتی ہے۔
’ ورلڈ ویژن‘ جرمنی کے صحت کے امور کے ماہر مارون مائیر کا کہنا ہے،’’ بھوک ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کا حل موجود ہے۔ جب کوئی بچپن میں ہی کم خوراکی یا نامناسب غذا کا شکار ہو تو وہ اپنی آئندہ کی زندگی میں بھی جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور اور گوناگوں بیماریوں کا شکار رہتا ہے‘‘۔