دنیا کی آدھی خوراک ضائع ہو جاتی ہے، نئی رپورٹ
11 جنوری 2013برطانیہ کے انسٹی ٹیوشن آف مکینیکل انجینئرنگ کی طرف سے جاری کی جانے والی اس رپورٹ کے مطابق زیادہ تر خوراک ترقی پذیر ملکوں میں انفرا سٹرکچر اور ذخیرہ کرنے کی مناسب سہولیات نہ ہونے کے باعث ضائع ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ترقی یافتہ دنیا میں صارفین کی خوراک کے حوالے سے پریشانی بھی ضیاع کا باعث بنتی ہے۔
اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کے گزشتہ برس کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا میں اس وقت بھی ہر آٹھ میں سے ایک فرد ایسا ہے جس کو خوراک تک رسائی حاصل نہیں۔ یا اسے غیر صحتمند خوراک میسر ہے۔ ان اعداد وشمار کے مطابق عالمی سطح پر 868 ملین افراد اس وقت دنیا میں موجود ہیں جن کی مناسب خوراک تک رسائی نہیں ہے۔
’’گلوبل فُوڈ، ویسٹ ناٹ، وانٹ ناٹ‘‘ نامی حالیہ رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں چار بلین ٹن خوراک پیدا ہوتی ہے، لیکن اس میں سے 30 سے 50 فیصد تک استعمال ہی نہیں ہوتی۔
اس رپورٹ کے مطابق خوراک کے زیاں کا ذمہ دار ایک بڑا ملک خود برطانیہ ہے جہاں 30 فیصد تک اگائی جانے والی سبزیاں محض اس وجہ سے نہیں کاٹی جاتیں کہ وہ دیکھنے میں اچھی نہیں ہوتیں اور اس لیے اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ سپر مارکیٹیں اس سبزی کو فروخت نہیں کریں گی۔
رپورٹ کے مطابق یورپ اور امریکا میں اُس خوراک کا قریب نصف حصہ ضائع کر دیا جاتا ہے جو لوگ استعمال کے لیے خریدتے ہیں۔ انسٹی ٹیوشن آف مکینیکل انجینئرنگ کے شعبہ توانائی اور ماحولیات کے سربراہ ڈاکٹر ٹِم فوکس کے مطابق: ’’دنیا بھر میں جس قدر خوراک ضائع ہوتی ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ یہی خوراک دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ان لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کر سکتی ہے جو آج بھوک کے شکار ہیں۔‘‘
ڈاکٹر ٹِم فوکس کا مزید کہنا ہے: ’’ یہ ایک طرح سے زمین، پانی اور توانائی کے ذرائع کا بھی زیاں ہے جو ایسی خوراک کی پیداوار، اسے پراسیس کرنے اور اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں استعمال ہوتے ہیں۔‘‘
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خوراک کی جس قدر مقدر ضائع ہوتی ہے اسے اگانے کے لیے 550 ارب مکعب میٹر پانی سالانہ استعمال ہوتا ہے۔ اس ادارے کا اندازہ ہے کہ سال 2050ء تک خوراک اُگانے کے لیے پانی کی سالانہ ضرورت 10 سے 13 ٹریلین کیوبک میٹر تک پہنچ جائے گی۔ ٹم فوکس کے مطابق: ’’ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ 2075ء تک دنیا کی آبادی 9.5 ارب تک پہنچ جائے گی، جس کا مطلب ہے کہ آج کے مقابلے میں اس وقت تین ارب لوگ زیادہ ہوں گے جن کے لیے خوراک مہیا کرنا ہوگی۔‘‘
فوکس کہتے ہیں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتیں، اقوام متحدہ جیسی ترقیاتی ایجنسیاں اور ادارے مل کر لوگوں کی ذہنیت کو بدلنے کی کوشش کریں اور کسانوں، خوراک تیار کرنے والے اداروں، سپر مارکیٹوں اور صارفین میں خوراک کو ضائع کرنے جیسے رویوں کی حوصلہ شکنی کریں۔
aba/ng (AFP)