دو جرمن ریاستوں میں انتخابات، اے ایف ڈی کی بڑی کامیابی
2 ستمبر 2024وفاقی جرمنی کی تاریخ میں پہلی بار انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت 'الٹرنیٹیو فار جرمنی‘ یا 'متبادل برائے جرمنی‘ (اے ایف ڈی) ریاستی انتخابات میں سب سے مضبوط جماعت بن کر ابھری ہے۔
جرمنی میں سیکسنی اور تھیورنگیا کے پارلیمانی الیکشن میں کانٹے دار مقابلہ
مشرقی ریاست تھیورنگیا میں اس نے تقریباً 33 فیصد ووٹ حاصل کیے اور سب سے مضبوط پارٹی بن کر ابھری۔ تھیورنگیا کی ہمسایہ ریاست سیکسنی میں یہ پارٹی تقریباً 30 فیصد ووٹوں کے ساتھ حکمران سینٹر رائٹ کرسچن ڈیموکریٹک یونین سے تھوڑا سا پیچھے رہ کر دوسرے نمبر پر رہی۔
جرمن ریاستی الیکشن: انتہائی دائیں بازو کی جماعت کو کامیابی کی توقع
چونکہ ان دونوں ریاستوں میں ملکی خفیہ اداروں نے انتہائی دائیں بازو کی اس جماعت کی ''دائیں بازو کی تصدیق شدہ انتہا پسند‘‘ جماعت کے طور پر درجہ بندی کر رکھی ہے، اس لیے بھی کل اتوار کے روز ہوئے علاقائی پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا ماہرین بڑی بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔
مشرقی جرمنی کے لیے غیر ملکی ملازمین 'ناگزیر' ہیں، اسٹڈی
تھیورنگیا میں اے ایف ڈی کے ریاستی چيئرمین بیورن ہؤکے کو اپنی پارٹی کے سب سے زیادہ بنیاد پرست عہدیداروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے بار بار نازی بیانات کا استعمال کیا اور رواں برس ہی ایک عدالت انہیں انتخابی مہم کے دوران مختلف اجتماعات میں ممنوعہ نازی نعرہ استعمال کرنے پر مجرم بھی قرار دے چکی ہے۔
اے ایف ڈی کی اقتدار تک رسائی کی کوشش
اتوار کی شام جیسے ہی ان انتخابات کے نتائج سامنے آنا شروع ہوئے، اے ایف ڈی کے ملکی سطح پر شریک سربراہ ٹینو شروپالا نے دوسری جماعتوں پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کرتے ہوئے جرمن پبلک براڈکاسٹر زیڈ ڈی ایف سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ''ایک بات بالکل واضح ہے: ووٹروں کی مرضی یہ ہے کہ پالیسی میں تبدیلی ہونا چاہیے۔ اب ہمارے پاس تھیورنگیا میں حکومت کرنے کا واضح مینڈیٹ ہے۔‘‘
اے ایف ڈی کا مرکزی مطالبہ امیگریشن پالیسی میں تبدیلی کا ہے۔ پارٹی نے ایک بڑی مہم چلائی، جس میں جرمنی سے مہاجرین کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کا مطالبہ کیا گیا۔
جرمنی نے 52 ممالک کے 16 ارب یورو کے قرضے معاف کر دیے
تاہم انتخابی کامیابیوں کے باوجود ممکنہ طور پر اے ایف ڈی اپوزیشن میں ہی رہے گی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے اے ایف ڈی کے ساتھ براہ راست سیاسی تعاون کو مسترد کر دیا ہے۔
تھیورنگیا میں اے ایف ڈی کے ریاستی چيئرمین بیورن ہؤکے نے کہا، ''ہم نمبر ون پارٹی ہیں۔ ہم نتائج کا تجزیہ کریں گے اور پھر ممکنہ اتحادی شراکت داروں سے رجوع کریں گے۔‘‘
دونوں ہی وفاقی ریاستوں میں اگرچہ اے ایف ڈی نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، تاہم اس کے پاس اتنی سیٹیں نہیں ہیں کہ وہ بذات خود حکومت سازی کر سکے۔
جمہوریت کو نقصان پہنچنے کے خلاف تنبیہ
جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کو عروج برسوں کے مظاہروں اور انتباہات کے پس منظر میں ملا ہے۔ انتہا پسندی سے متعلق محققین کا کہنا ہے کہ اے ایف ڈی کے نظریات نسل پرستی اور جمہوریت مخالف روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
جرمنی میں قبل از وقت قومی الیکشن خارج از مکان، وفاقی حکومت
سیاسی مبصرین نے اے ایف ڈی کے عروج اور سن 1920 کی دہائی کے اواخر میں اڈولف ہٹلر کی نیشنل سوشلسٹ پارٹی کے عروج کے مابین مماثلتوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔
ہٹلر کی پارٹی این ایس ڈی اے پی سن 1929 میں ریاست تھیورنگیا میں پہلی بار حکومت میں شامل ہونے میں کامیاب ہوئی تھی۔ پھر اس کے بعد این ایس ڈی اے پی نے سول سروس میں صفائی کا کام شروع کیا اور اہم دفاتر کو اپنی پارٹی کے ارکان سے بھر دیا۔
تاہم ایسے تمام انتباہات کے باوجود اے ایف ڈی انتخابات کے بعد اب پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ پارٹی کے سرکردہ رہنما اپنے تمام ابتدائی بیانات میں بار بار یہ بات واضح کرتے رہے ہیں کہ وہ جرمن سیاست میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔
علاقائی اسمبلیوں کو مفلوج کرنے کی طاقت
اے ایف ڈی کے پاس اگرچہ بذات خود کسی بھی ریاست میں حکومت بنانے کی سکت نہیں ہے، تاہم اب اسے سیاسی طاقت کا ہتھیار میسر ہے۔
وفاقی ریاستوں سیکسنی اور تھیورنگیا میں تیس فیصد سے زیادہ ووٹوں کے ساتھ اب یہ جماعت ایسے فیصلوں کو روک سکتی ہے، جن کے لیے ریاستی اسمبلیوں میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہو گی اور اس طرح اس کے پاس جمہوری عمل کو مفلوج کرنے کی صلاحیت آ گئی ہے۔
ریاستی اسمبلی میں سب سے مضبوط سیاسی قوت کی حیثیت سے اے ایف ڈی کے پاس ریاستی پارلیمنٹ کے صدر کو منتخب کرنے کا حق بھی ہو گا اور یہ ایک ایسا عہدہ ہے، جو دور رس طاقت کا حامل ہوتا ہے۔
پارلیمنٹ کا صدر ریاستی وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا اہتمام بھی کرتا ہے اور اس کے پاس اہم سرکاری ملازمین کی تقرری اور انہیں برطرف کرنے کا اختیار بھی ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کا صدر کسی بھی مجوزہ اور منظورہ شدہ قانون پر دستخط کرنے سے بھی انکار کر سکتا ہے۔
جرمنی کی متعدد نچلی سطح کی تنظیمیں اس کے خلاف وارننگ دیتی رہی ہیں۔ وہ کئی مہینوں سے یہ شکایت بھی کرتی رہی تھیں کہ اے ایف ڈی نے اپنے امیگریشن مخالف نعروں سے ملک میں سیاسی بحث کو انتہائی دائیں جانب منتقل کر دیا ہے۔
سماجی امور کے ماہر ڈیوڈ بیگرش نے جرمن سیاست دانوں کو ریاستی انتخابات سے غلط نتائج اخذ کرنے کے خلاف بھی خبردار کیا ہے۔
وہ مشرقی جرمنی کے تمام ووٹروں کو انتہائی دائیں بازو کے حامی اور غیر جمہوری قرار دینے کے خلاف تنبیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''آپ کو اے ایف ڈی کے سیاسی ایجنڈے سے یکسر کنارہ کشی اختیار کرنا ہو گی اور ملک کے مشرق میں ان لوگوں کی طرف رجوع کرنا ہو گا، جو جمہوریت کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔‘‘
اے ایف ڈی کی تازہ انتخابی کامیابیوں کے بعد ڈیوڈ بیگرش اس بات پر بھی اصرار کرتے ہیں کہ چھوٹے جمہوری اقدامات کو مضبوط کرنا ضروری ہے اور ان اقدامات کے کامیاب تسلسل کو یقینی بنانا بھی انتہائی اہم ہے۔
ص ز/ ج ا (ہنس فائفر)