دہشت گردانہ منصوبوں میں ’ملوث‘ امریکی مسلمانوں کی تعداد میں کمی
3 فروری 2011اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس دہشت گردی کے منصوبوں میں مبینہ طور پر ملوث امریکی مسلمانوں کی تعداد نصف رہ گئی ہے۔ 2010ء میں بیس امریکی مسلمانوں پر دہشت گردی کے منصوبوں میں ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا، جبکہ 2009ء میں یہ تعداد 47 تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ دو ہزار نو میں ایسے کیسز میں ہونے والے اضافے کی وجہ صومالی نژاد امریکی تھے، جن کی بڑی تعداد نے صومالیہ میں اسلامی انتہاپسند تحریک الشباب میں شامل ہونے کی کوشش کی۔
گزشتہ برس پانچ امریکی مسلمان مشتبہ دہشت گردوں نے اپنے منصوبوں کو آگے بڑھایا۔ ان میں نیویارک سٹی کے ٹائمز اسکوائر میں دھماکہ کرنے کی کوشش کرنے والا پاکستانی نژاد فیصل شہزاد بھی شامل تھا۔
اس نے ایک گاڑی میں بم نصب کر کے اسے ٹائمز اسکوائر پر چھوڑ دیا تھا، تاہم دھماکہ نہ ہو سکا۔ بعدازاں شہزاد کو امریکہ سے فرار ہونے کی کوشش میں اس وقت گرفتار کیا گیا، جب وہ دبئی جانے والے ایک طیارے میں سوار ہو چکا تھا۔
اکتیس سالہ فیصل شہزاد نے امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہیں فنانشل تجزیہ کار کے طور پر کام کرنے لگا۔ اس کی پرورش پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہوئی۔ اس کا تعلق ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان سے ہے۔ وہ پاکستانی فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ اہلکار کا بیٹا ہے، اور وہاں امراء کے لئے معروف پاکستان ایئرفورس کالج کا طالب علم رہا ہے، جس کے بعد وہ امریکہ منتقل ہوا۔
بتایا جاتا ہے کہ وہ تعلیمی ویزے پر امریکہ گیا۔ اس نے 2000ء میں برج پورٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کی اور 2005ء میں ایم بی اے کیا۔
فیصل شہزاد سے متعلق طالبان نے ایک ویڈیو بھی جاری کی تھی، جس میں اسے افغان لباس پہنے دکھایا گیا۔ وہ رائفل اور قرآن ہاتھوں میں لئے ہوئے تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ ویڈیو اس وقت بنائی گئی، جب وہ طالبان سے تربیت حاصل کر رہا تھا۔
امریکی مسلمانوں اور دہشت گردی کے موضوع پر مرتب کی گئی رپورٹ بدھ کو ٹرائی اینگل سینٹر برائے دہشت گردی اور داخلی سلامتی نے جاری کی۔ اس تحقیق میں ڈیوک یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا چیپل ہِل کے ماہرین نے حصہ لیا۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: عاطف بلوچ