دہلی یونیورسٹی کے نصاب میں سے رامائن بارے عالمانہ مضمون حذف
2 نومبر 2011گزشتہ ماہ بھارت کی معروف دہلی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے تاریخ کے مضمون کے لیے ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر اے کے رام نجن کا وہ مضمون لازمی مطالعے سے ہٹا دیا ہے جس کا تعلق ہندوؤں کی مقدس کتاب رامائن اور دیوتا رام چندر کی حیات کے بارے میں تھا۔ انتہاپسند ہندوؤں کا خیال تھا کہ اے کے رام نجن کے مضمون میں مہاراج رام چندر کی ذاتی زندگی کا تذکرہ ہزلیہ اور بے توقیری پر مبنی ہے۔ اس مضمون کو ہٹانے کے سلسلے میں قدامت پسند ہندو تنظیموں کے حامی طلبا نے شعبہ تاریخ کے دفاتر میں جا کر غنڈہ گردی کرتے ہوئے توڑ پھوڑ سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔
دہلی یونیورسٹی نے ممتاز استاد اے کے رام نجن کے تحریرکردہ طویل تحقیقی مضمون تین سو رامائنیں یا Three Hundred Ramayanas کو نصابی لسٹ سے خارج کیا ہے۔ پروفیسر رام نجن امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی میں برسوں پڑھاتے رہے ہیں۔ وہ مفکر، شاعر، ڈرامہ نویس تھے۔ وہ بھارتی علاقے میسور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی رحلت سن 1993میں ہوئی تھی۔ دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر بھارتی جگ ناتھن کا کہنا ہے کہ رام نجن نے اپنے طویل مضمون میں طلبہ کو رامائن بارے مختلف تاریخی تشریحات سمجھانے کی کوشش ہے۔ انتہاپسند ہندو مذہبی اعتقاد کے تناظر میں مہاراج رام چندر کی ابتدائی زندگی میں ان کے مختلف جنسی حوالوں کو پسند نہیں کرتے۔
مبصرین نے دہلی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں پیدا ہونے والی غارت گری اور اس کے بعد مضمون کو ہٹائے جانے کے عمل کو قدامت پسند ہندوؤں کے عالمی سطح پر مسلسل پھیلتے گہرے اثر کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے اس فیصلے پر آزاد خیال دانشور برہم ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ یونیورسٹی کا فیصلہ کٹر اور سخت نظریات کے حامل مذہبی افراد کے سامنے ایک اور سیکولر ادارے کا جھکنا ہے۔ ممتاز ناول نگار سلمان رشدی نے دہلی یونیورسٹی کے اس فیصلے کو تعلیمی سنسر شپ کا نام دیا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ بھارت میں کانگریس حکومت میں اٹھنے والے کرپشن اسکینڈلز کے تناظر میں عام لوگ مذہب سے متاثرہ پارٹیوں کی جانب متوجہ ہونے لگے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ بھارتی کلچر میں ہندو بنیاد پرستوں کی ضد کے سامنے ادارے پہلے بھی جھکتے رہے ہیں۔
بھارت کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکز شہر بنگلور میں شراب خانوں اور مغربی تمدن کے اثرات کے خلاف بنیاد پرست ہندوؤں کے دھاوے اور شور شرابے کو اب ایک معمول خیال کیا جانے لگا ہے۔ انتہاپسند ہندوؤں کا خیال ہے کہ مغربی تمدن بھارتی ثقافت کو پراگندہ کر رہا ہے۔ گزشتہ سال ممبئی یونیورسٹی نے انتہاپسندوں کی دھمکیوں کو محسوس کرتے ہوئے لٹریچر کے نصاب سے بھارتی نژاد کینیڈین مصنف روہنٹن مستری کے بکرز پرائز یافتہ ناول سچ اے لانگ جرنی (Such A Long Journey) کو ہٹا دیا تھا۔ شیو سینا نے اس ناول کی کاپیاں جلائی بھی تھیں۔ بھارت کے عالمی شہرت کے مصنف مقبول فدا حسین المعروف ایم ایف حسین بھی انتہاپسندوں کی دھمکیوں سے پریشان ہو کر جلا وطنی پر مجبور ہو گئےتھے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عدنان اسحاق