’روس شام میں اسرائیلی کارروائیوں کو محدود نہیں کر سکتا‘
16 اپریل 2018ایک اسرائیلی نیوز ویب سائٹ کے ساتھ ایک ویڈیو انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں لیبرمین کا کہنا تھا، ’’ہم کارروائیوں کی مکمل آزادی کو برقرار رکھیں گے۔ جب بات ہمارے سلامتی سے متعلق مفادات کی ہو گی تو ہم کوئی پابندی قبول نہیں کریں گے۔‘‘
اسرائیلی وزیر دفاع کے مطابق، ’’لیکن ہم روسیوں کو بھی اشتعال دلانا نہیں چاہتے۔ ہم نے سینیئر افسران کی سطح پر رابطہ کاری کا سلسلہ کھلا رکھا ہوا ہے۔ روسی ہمیں سمجھتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ شام میں کئی برسوں سے ہم نے ان کے ساتھ کوئی اختلاف پیدا نہیں ہونے دیا۔‘‘
لیبرمین نے اس موقع پر ایک مرتبہ پھر اسرائیل کے مرکزی حریف ملک ایران پر الزام عائد کیا کہ وہ ہسمایہ ملک شام میں فوجی طور پر خود کو مضبوط بنانے اور اسرائیل کو ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ایوگڈور لیبرمین کے مطابق، ’’ہم شام میں فوجی، بحری اور فضائی اڈوں کی صورت میں ایک قابل ذکر ایرانی فوجی قوت یا جدید ہتھیاروں کی تیاری کو برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نو اپریل کو شام میں واقع ایک ایئر بیس پر ایک فضائی حملے کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں سات ایرانی اہلکار بھی شامل تھے۔ شامی حکومت کے حلیف ممالک روس اور ایران نے اس حملے کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی تھی۔
بعد ازاں روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو کال کر کے کہا تھا کہ وہ کوئی ایسی کارروائی نہ کریں جو شام میں صورتحال کو مزید غیر مستحکم کر دے۔
اسرائیل نے اس حملے کی نہ تو ذمہ داری قبول کی تھی اور نہ ہی اس کی کوئی تردید کی تھی۔ تاہم اسرائیل متعدد مرتبہ یہ کہہ چکا ہے کہ وہ شام میں ایران کے فوجی طور پر قدم جمانے کو برداشت نہیں کر سکتا۔
اے ایف پی کے مطابق اسرائیل شامی تنازعے میں براہ راست ملوث ہونے سے بچتا رہا ہے تاہم وہ ماضی میں ایسے درجنوں فضائی حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے جو اس کے مطابق لبنانی شیعہ گروپ حزب اللہ کے لیے ایران کی طرف سے بھیجے گئے ہتھیاروں کو تباہ کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔