روس ہر چینلج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے، پوٹن کا اسٹیٹ آف یونین خطاب
4 دسمبر 2014روسی صدر ولادیمر پوٹن نے آج جمعرات کو اپنے سالانہ اسٹیٹ آف یونین خطاب میں کہا کہ ایسے افراد جنہوں نے رواں برس سرمایہ ملک سے باہر منتقل کیا، اگر وہ اپنا سرمایہ واپس روس لاتے ہیں تو وہ ٹیکس سے مبرا رہیں گے۔ ان کے اس اہم خطاب میں مغربی پابندیوں اور عالمی منڈیوں میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ملکی معیشت کو درپیش مسائل مرکزی نکات رہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق روسی صدر ولادیمير پوٹن کی ملک میں سیاسی مقبولیت برقرار ہے، تاہم اقتصادی مسائل کی وجہ سے انہیں متعدد حلقوں کی جانب سے سوالات کا بھی سامنا ہے۔ وہ اپنے اس خطاب میں یہ واضح کر رہے ہیں کہ یوکرائن کے تنازعے کی وجہ سے روس پر عائد یورپی اور امریکی پابندیوں کی موجودگی میں وہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے کس لائحہ عمل پر گامزن ہیں۔
ڈی پی اے کے مطابق ایک طرف یوکرائن کے بحران میں ماسکو حکومت کی مداخلت کی وجہ سے روس پر عائد مغربی پابندیوں کی وجہ سے روسی معیشت دباؤ کی شکار ہے، تو دوسری جانب تیل اور گیس کی برآمد پر انحصار کرنے والے روس کو عالمی منڈیوں میں تیل کی انتہائی گراوٹ کی شکار قیمتوں نے پریشان کر رکھا ہے۔ روسی حکام کہہ چکے ہیں کہ اگر اقتصادیات پر ان دونوں عناصر کا فوری ازالہ نہ ہوا، تو اگلے برس ملکی معیشت کساد بازاری کا شکار ہو سکتی ہے۔
ڈی پی اے کے مطابق ان تمام وجوہات کے باوجود داخلی سطح پر صدر پوٹن کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں دیکھی گئی اور نہ ہی حکومت مخالف کوئی بڑا عوامی مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مبصرین کے مطابق دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا پوٹن اپنے خطاب کے ذریعے ایک اعشاریہ چار ٹریلین ڈالر کی روسی معیشت کی بحالی کے لیے حکومتی اقدامات پر سوال اٹھانے والوں کو کس حد تک مطمئن کر سکتے ہیں۔
اقتصادیات کے ماہر روسی مبصر کیریل روگوف کے مطابق صدر پوٹن کے لیے ملکی اقتصادیات کی بحالی اولین معاملہ ہے۔ رواں ہفتے اپنے ایک تبصرے میں روگوف کا کہنا تھا، ’روسی رہنما ملک کی بیمار اقتصادیات پر نہ بات کرتے نظر آتے ہیں اور نہ ہے بحالی کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات۔‘
ڈی پی اے کے مطابق روسی صدر یہ خطاب ایک ایسے موقع پر کر رہے ہیں، جب جمعرات کے روز ہی روس کے جنوبی خطے چیچنیا میں مسلح حملہ آوروں اور پولیس کے درمیان جھڑپ میں متعدد سکیورٹی اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ روسی صدر کے بطور پوٹن نے چیچنیا میں جاری شورش کچلنے کے لیے ایک دہائی سے زائد عرصے قبل فوج بھیجی تھی، تاہم چیچنیا میں پرتشدد واقعات کا سلسلہ وقفے وقفے سے اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔