ایک ستارہ جو کسی پوری کہکشاں کی روشنی کو بھی ماند کر دے گا
22 ستمبر 2024بیٹل جوس کو عموماﹰ بیٹل گُوز (Betelgeuse) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سرخ رنگ کا ایک عظیم الجثہ، انتہائی چمک دار اور متغیر ستارہ ہے، جو ہماری کائنات میں اوراین برج میں اوپر کی طرف دائیں جانب بہت نمایاں ہوتا ہے۔
سائنس دانوں نے ایک نیا عظیم الجثہ گیسی سیارہ دریافت کر لیا
یہ رات کے وقت زمین سے آسمان پر انسانی آنکھ سے باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر اسے دوربین سے دیکھا جائے، تو یہ کسی ایسے شکاری کی طرح دکھائی دیتا ہے، جس نے اپنے کندھے پر بندوق اٹھا رکھی ہو۔ فلکیاتی ماہرین اسے 'آرم پِٹ آف اے جائنٹ‘ (Armpit of a Giant) بھی کہتے ہیں۔
بیٹل جوس کو متغیر ستارہ کیوں کہا جاتا ہے؟
ڈاکٹر فضیل محمود خان نے جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ کی یونیورسٹی کے ماکس پلانک ریسرچ اسکول فار ایسٹرانامی اینڈ کاسمک فزکس سے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور اس وقت وہ متحدہ عرب امارات کی ریاست ابوظہبی کی نیو یارک یونیورسٹی سے بحیثیت محقق وابستہ ہیں۔
ڈاکٹر فضیل محمود خان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بیٹل جوس کا تعلق متغیر ستاروں کے ایک پورے گروپ سے ہے اور ایسے ستاروں کی روشنی میں ان میں رونما ہونے والے داخلی طبعی عوامل کے باعث ایک خاص مدت کے بعد تبدیلی پیدا ہوتی رہتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بیٹل جوس نامی عظیم الجثہ ستارے کی روشنی میں ایک باقاعدہ چکر کی صورت میں تغیرات آتے ہیں۔ ایسے ایک عام طبعی چکر یا فزیکل سائیکل کا دورانیہ 2170 دن ہوتا ہے۔ اس دوران اس جائنٹ سٹار کی روشنی مدہم ہو کر دوبارہ از خود بحال ہو جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روشنی میں یہ تغیرات اس ستارے کی بیرونی تہوں میں ارتعاش کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
زمین کے نظام شمسی سے باہر نئے سیاروں کی دریافت، ایک قابل رہائش؟
ڈاکٹر فضیل محمود کے بقول بیٹل جوس کی کمیت ہمارے نظام شمسی کے سورج سے بمشکل 15 گنا زیادہ ہے اور فلکیاتی اعتبار سے اس کی زندگی کا دورانیہ محض 10 ملین سال ہے، جو سورج کی زندگی یعنی دس بلین سال سے بہت ہی کم ہے۔ اسی لیے یہ ستارہ اب اپنے اختتام کے قریب ہے۔
ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ بیٹل جوس مقابلتاﹰ جلد ہی پھٹ کر سپر نووا بن جائے گا۔ کسی ستارے سے سپر نووا بننے کا عمل انتہائی طاقت ور ہوتا ہے۔ سائنسدانوں کی رائے میں جب بیٹل جوس پھٹ کر سپر نووا بننے گا، تو یہ اتنا زیادہ روشن ہو گا کہ کئی بلین ستاروں سے بھری کسی کہکشاں کی روشنی کو بھی ماند کر دے گا۔
ڈاکٹر فضیل محمود خان کے الفاظ میں ماہرین فلکیات ابھی تک حتمی طور پر نہیں جانتے کہ بیٹل جوس کب پھٹ کر سپر نووا بنے گا، ''ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں یہ بہت انوکھا منظر دیکھ سکیں۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری آئندہ نسل بھی ایسا ہوتا نہ دیکھ سکے۔‘‘
بیٹل جوس ماہرین فلکیات کی توجہ کا مرکز کیوں؟
بیٹل جوس نامی ستارہ گزشتہ پانچ سال سے ماہرین فلکیات کی خصوصی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ 2019ء کے اواخر میں اس کی روشنی میں نمایاں کمی نوٹ کی گئی تھی جو جون 2020ء تک بحال بھی ہو گئی تھی۔ ابوظہبی کی نیو یارک یونیورسٹی کے ریسرچر فضیل محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 2019ء سے 2020ء تک بیٹل جوس کی روشنی مدہم ہونے سے متعلق کئی وضاحتیں پیش کی گئی تھیں۔
آئن سٹائن کا ’بے حد بڑے بلیک ہول‘ کا نظریہ سچ ثابت ہو گیا
ان میں سے سب سے زیادہ قابل قبول وضاحت یہ ہے کہ بیٹل جوس کے قریب خلائی گرد کا ایک بادل یا ڈسٹ کلاؤڈ بن گیا تھا۔ ڈاکٹر خان کے بقول اس وضاحت کی تصدیق ہبل اور کئی دیگر دوربینوں سے حاصل شدہ ڈیٹا سے بھی ہو گئی۔ ان دوربینوں کے ذریعے بھی اس ستارے کی ''ڈِمنگ‘‘ یا اس کی روشنی مدہم ہو جانےکے عمل کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔
اس نظریے کے مطابق تب بیٹل جوس نے اپنی بیرو نی تہوں سے بڑی مقدار میں مواد خارج کیا تھا۔ یہ مواد ٹھنڈا اور گاڑھا ہو کر ایک ڈسٹ کلاؤڈ کی شکل اختیار کر گیا تھا، جو اس ستارے کی روشنی کو زمین تک پہنچنے سے جزوی طور پر روک رہا تھا۔
نئے دور افتادہ ترین نظام شمسی کی دریافت
فلکیاتی طبیعیات کے ماہرین کے مطابق بیٹل جوس ایک عظیم الجثہ سرخ ستارہ ہے، جو اپنے اندرونی درجہ حرارت، دباؤ اور زیادہ کمیت والی غیر مستحکم بیرونی تہوں کے باعث اکثر مرتعش رہتا ہے۔ یہ عمل اس ستارے کے پھیلنے اور سکڑنے کا باعث بنتا ہے اور اس وجہ سے بھی اس کی روشنی وقتاﹰ فوقتاﹰ مدہم یا تیز ہوتی رہتی ہے۔
کسی ستارے سے سپر نووا بننے کا عمل اہم کیوں؟
ڈاکٹر فضیل محمود خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بیٹل جوس جب پھٹ کر سپو نووا بنے گا، تو آسمان پر پورے چاند سے بھی زیادہ روشن دکھائی دے گا۔ ان کے بقول تب ''اسے شاید کئی ہفتوں یا مہنیوں تک دن کی روشنی میں بھی دیکھا جا سکے گا۔‘‘
کیا کہکشاؤں کے بھی دل اور پھیپھڑے ہوتے ہیں؟
کائنات میں ستاروں کے سپر نووا بننے کا عمل انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کوئی ستارہ جب پھٹتا ہے، تو نیوکلیئر ری ایکشنز کی صورت میں بڑی مقدار میں ایسے اہم عناصر بناتا ہے، جو دھماکے کے ساتھ ہی ہر طرف بکھر جاتے ہیں۔ ان عناصر میں آئرن، آکسیجن، نکل، سیلیکون، سلفر، کاربن، نائٹروجن اور یورینیم وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔
چین کا مریخ سے پتھروں کے نمونے زمین پر لانے کا منصوبہ
جرمنی سے فلکیاتی طبیعیات میں ڈاکٹریٹ کرنے والے اس پاکستانی سائنسدان کے بقول درحقیقت ہائیڈروجن اور ہیلیم کے علاوہ تمام عناصر اسی عمل سے وجود میں آئے۔ ''حتیٰ کہ زمین اور ہمارے جسم میں موجود تمام عناصر بھی ستاروں کے اندر ہی بنے تھے، جو بعد میں ان ستارون کے پھٹ کر سپر نووا بننے کے دوران ہر طرف بکھر گئے تھے۔‘‘
ان کے مطابق کائنات کی طبیعیاتی تاریخ میں بہت زیادہ پیچھے جا کر دیکھا جائے تو انسانی وجود کا ظہور بھی دراصل ''سٹار ڈسٹ‘‘ کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔
ڈاکٹر فضیل محمود خان نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنی بات اس وضاحت کے ساتھ ختم کی، ''جلد یا بدیر بیٹل جوس کی بیرونی تہہ پھٹ کر اسے ایک بلیک ہول میں تبدیل کر دے گی اور وہی اس عظیم الجثہ ستارے کی فلکیاتی زندگی کے دور کا آخری باب ہو گا۔‘‘