روہنگیا افراد کی اسمگلنگ کا سرغنہ پینتیس برس کے لیے جیل میں
1 ستمبر 2016تھائی لینڈ کے صوبے پک پھانانگ کی ایک عدالت نےسُونند سائنگ تھونگ کو پینتیس برس قید کی سزا کا حکم سنایا ہے۔ سائنگ تھونگ پر الزام تھا کہ وہ برسوں سے روہنگیا مسلمانوں کو غیرقانونی طریقے سے ملائیشیا پہنچانے کا کاروبار کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ وہ بنگلہ دیش کے اقتصادی مہاجرین کی اسمگلنگ میں بھی ملوث تھا۔ انسانوں کی غیر قانونی اسمگلنگ انتہائی جنوبی تھائی لینڈ سے کی جاتی تھی۔
جنوبی تھائی لینڈ میں سُونند سائنگ تھونگ کو انسانی اسمگلنگ کا بےتاج بادشاہ قرار دیا جاتا تھا۔ وہ ایک بڑے نیٹ ورک کو خفیہ انداز میں کنٹرول کر رہا تھا۔ گزشتہ برس جب انسانی اسمگلنگ کے معاملے پر عالمی سطح پر شور اٹھا تو تھائی لینڈ کی فوجی حکومت بھی چوکنا ہو گئی اور اُس نے مختلف ملکوں سے موصولہ رپورٹوں پر عمل کرتے ہوئے ملک کے جنوبی کونے پر فوکس کیا۔ اس نگرانی کے نتیجے میں انسانی اسمگلنگ کے اس بادشاہ کو گرفتار کر لیا۔
گزشتہ برس تھائی پولیس نے ایک چھاپا مار کر جب اُسے گرفتار کیا تو اُس کے قبضے سے ستانوے روہنگیا مسلمان بھی برآمد کیے گئے تھے۔ عدالت کے ترجمان نے واضح کیا کہ استغاثہ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے دوران جو بھی نقد رقم حاصل کی جاتی تھی وہ سائنگ تھونگ کے بینک اکاؤنٹ منتقل کی جاتی تھی۔ ان تفصیلات سے کہا جا سکتا ہے کہ سائنگ تھونگ روہنگیا ٹریفکنگ میں باقاعدہ طور پر ملوث تھا۔
عدالت کی جانب سے پینتیس برس کی سزا کے علاوہ اُس پر چھ لاکھ ساٹھ ہزار بھات (تھائی کرنسی) یا انیس ہزار ڈالر کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔
ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے نمائندے بھی اِس مقدمے کی شنوائی کے وقت عدالت میں موجود تھے۔ کمیشن کے مطابق پولیس نے سائنگ تھونگ گینگ کی پانچ ایسی گاڑیاں بھی اپنے قبضے میں لی تھیں اور ان میں روہنگیا افراد کو ڈور ڈنگروں کی طرح ٹھونسا کر رکھا گیا تھا۔ ان میں چالیس کم سن بچے بھی تھے۔
اندازوں کے مطابق ایک ملین کے قریب روہنگیا نسل کے لوگ میانمار کی راکھین ریاست میں انتہائی عسرت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کو ایک طرح سے نسلی تعصب کا سامنا ہے۔ یہ کرہ ارض پر انتہائی محروم کمیوٹی تصور کی جاتی ہے۔