ری سائیکلنگ کے نام پر الیکٹرانک کوڑا بھارت میں
8 جون 2010اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پرانے برقی آلات میں استعمال ہونے والی دھاتوں کو ری سائیکلنگ کے ذریعے دوبارہ ایسے بنیادی مادوں کی شکل دی جا سکتی ہے، جن سے دوبارہ نئی اَشیاء بنائی جا سکتی ہیں۔ اِس عمل سے خام مادوں اور ماحول پر پڑنے والے دباؤ میں کمی آتی ہے۔ تاہم دُنیا بھر سے سالانہ جو ہزارہا ٹن پرانے اور مزید ناقابلِ استعمال الیکٹرانک آلات غیر قانونی طور پر بھارت پہنچتے ہیں، اُن کی ری سائیکلنگ اُلٹا ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے قریب غیر قانونی طور پر قائم کئے گئے ایک صنعتی علاقے میں ایک ایسا ہی ری سائیکلنگ مرکز ہے۔ یہاں ہریش نامی ایک مزدور پلاسٹک کی ایک بڑی سی ٹینکی میں ہاتھ ڈالے کھڑا ہے اور اُس کا کہنا ہے کہ اُسے سبز رنگ کے اِس تیزابی محلول میں، جس سے مسلسل بُلبلے اُٹھ رہے ہیں، ہاتھ ڈالنے سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ لیکن وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اِس تیزاب سے اُٹھنے والی بھاپ سانس کی نالیوں کے لئے خطرناک ہے اور وہ یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہے۔
ہرِیش کے مطابق اِس خطرے کے باوجود وہ یہاں کام کرنے پر مجبور ہے کیونکہ اُس نے اور کسی قسم کی تعلیم و تربیت حاصل نہیں کی ہے۔ ہریش ری سائیکلنگ کے جس مرکز میں کام کرتا ہے، وہاں دُنیا بھر سے پرانے کمپیوٹر، پرنٹر، سی ڈی پلیئر اور دیگر آلات لائے جاتے ہیں۔ اِن آلات کو تیزابی محلول میں ڈال دیا جاتا ہے۔
اِس کے بعد کیا ہوتا ہے، یہ بتاتے ہیں، ایک غیر سرکاری تنظیم "Toxic Link" کے سربراہ روی اگروال:’’یہ تیزاب بہت زُود اثر ہے۔ جب کمپیوٹرز اور پرنٹرز کی پرانی پلیٹیں اِس میں رکھی جاتی ہیں تو باقی سب کچھ اِس میں تحلیل ہو جاتا ہے، صرف خالص تانبا باقی بچتا ہے، جو دوبارہ استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ اِس تیزاب سے جسم شدید طور پر جل سکتا ہے اور جب اِسے بہایا جاتا ہے تو اِس سے خارج ہونے والی گیسیں پورے ماحول کو متاثر کرتی ہیں۔‘‘
روی اگر وال بتاتے ہیں کہ بھارت آنے والا کوڑا کرکٹ اِس نام سے نہیں بلکہ ’مِکسڈ میٹل‘ یعنی ملی جُلی دھاتوں کے نام سے آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، اُنہوں نے الیکٹرانک کوڑا کرکٹ سے بھرے ایسے کنٹینر بھی دیکھے ہیں، جن پر باقاعدہ کسٹم حکام کی مہر لگی ہوئی تھی۔ اِن کارکنوں کے اندازوں کے مطابق ایسا سالانہ پچاس تا ساٹھ ہزار ٹن کوڑا بھارت لایا جاتا ہے۔
رپورٹ:کائی کسٹنر(نئی دہلی) / امجد علی
ادارت: مقبول ملک