ریاستی انتخابات میں ناکامی، جرمن حکومت کو شدید دھچکا
2 ستمبر 2024جرمنی میں ریاستی انتخابات صرف علاقائی الیکشن نہیں ہوتے بلکہ انہیں وفاقی حکومت کی کارکردگی کا اندازہ لگانے کے لیے ایک پیمانے کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ اتوار یکم ستمبر کو صرف دو وفاقی ریاستوں میں انتخابات ہوئے لیکن ان کے نتائج اہم ہیں کیوں کہ یہ موجودہ مخلوط حکومت کے مستقبل کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
جرمنی میں کسی بھی ریاستی پارلیمانی الیکشن میں یہ پہلا موقع ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی اور مہاجرین مخالف جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کو ایک تہائی سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ دوسری جانب برلن میں مخلوط وفاقی حکومت بنانے والی پارٹیوں نے علاقائی انتخابات میں کبھی بھی اتنے برے نتائج کا سامنا نہیں کیا تھا۔
برلن میں وفاقی حکومت کے لیے 'سزا‘؟
رائے عامہ کے قبل از انتخابات جائزوں کے مطابق چانسلر اولاف شولس کی سیاسی جماعت ایس پی ڈی ریاستی اسمبلیوں سے سے باہر نکلنے کے خطرے سے بھی دوچار تھی لیکن یہ جماعت ایسی کسی 'عبرت ناک شکست‘ سے بچ گئی ہے۔ ہر پانچ میں سے چار جرمن ووٹروں کے مطابق وہ وفاقی حکومت کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہیں اور ایسا کافی عرصے سے ہے۔
ماہانہ بنیادوں پر کرائے جانے والے عوامی جائزوں میں بھی چانسلر شولس اور ان کے وزراء کی مقبولیت انتہائی کم ہو چکی ہے۔ جرمن شہری اس مخلوط وفاقی حکومت کو ''دائمی مشکلات کا شکار اور مسائل کا حل تلاش کرنے سے قاصر‘‘ خیال کرتے ہیں۔
دوسری جانب انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کے مطابق اسے عوام میں وسیع تر حمایت حاصل ہو چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اے ایف ڈی کی شریک رہنما ایلس وائیڈل نے اتوار کو وفاقی حکومت سے مستعفی ہو جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی انتخابات میں ان کی پارٹی اے ایف ڈی کو ''تاریخی کامیابی‘‘ ملی ہے۔
اے ایف ڈی کی اس خاتون رہنما کا کہنا تھا، ''یہ وفاقی حکومت کے لیے بھی ایک سزا ہے، یہ اتحاد اسی سزا کا حق دار ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''برلن حکومت کو خود سے پوچھنا چاہیے کہ کیا وہ اس طرح حکومت جاری رکھ سکتی ہے؟ یہ سوال کم از کم برانڈن برگ کے انتخابات کے بعد دوبارہ پوچھا جانا چاہیے کیوں کہ معاملات اس طرح نہیں چل سکتے۔‘‘
سب کی نظریں برانڈن برگ میں ریاستی انتخابات پر
مشرقی جرمنی کی ایک اور وفاقی ریاست برانڈن برگ میں 22 ستمبر کو انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ وہاں بھی اے ایف ڈی کو عوامی حمایت کے لحاظ سے برتری حاصل ہے لیکن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) اس کے قریب ہے۔ وہاں چانسلر شولس کی جماعت ایس پی ڈی آخری دن تک کوشش کرے گی کہ کسی طرح آئندہ علاقائی پارلیمانی انتخابات میں برتری حاصل کر سکے کیوں کہ یہ ریاست ایس پی ڈی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ایس پی ڈی سن 1990 سے برانڈن برگ میں ریاستی حکومت کی قیادت کر رہی ہے۔
اے ایف ڈی کو ریاستی انتخابات میں یہ کامیابیاں ایک ایسے وقت پر مل رہی ہیں، جب آئندہ برس جرمنی میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ اے ایف ڈی کے اقتدار میں آنے کے قومی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مضمرات بھی ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اے یف ڈی یوکرین کی حمایت جاری رکھنے کی مخالف ہے۔ جرمن معیشت کی خراب صورت حال اور مہاجرین کی جرمنی آمد کی وجہ سے اے ایف ڈی کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔
اسی دوران قدامت پسندوں کی پارٹی اور وفاقی سطح پر اپوزیشن کی مرکزی جماعت، کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) بھی وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔ وہ نہ صرف مائیگریشن پالیسی میں اعلان کردہ تبدیلیوں کو تیزی سے نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے بلکہ قوانین کو مزید سخت کرنے پر بھی زور دے رہی ہے۔ سی ڈی یو کا کہنا ہے کہ اے ایف ڈی کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ مہاجرین کے حوالے سے ''ملک میں ایمرجنسی نافذ‘‘ کی جائے۔
زابینے کنکارٹس (ا ا / م م)